اُس بازار میں ۔ طوائف کی ہوش ربا داستان الم از شو رش کاشمیری ۔ قسط نمبر 2
یونانی خرافات میں ایسے مندروں کا ذکر موجود ہے ، اور بعض کتبے ملے ہیں جن سے مردانہ جنسیات کی تصدیق ہوتی ہے۔ کئی محققوں کا خیال ہے کہ لڑکوں سے شادی کارواج دراصل ضبط تولید کی طرف پہلا قدم تھا ۔ خود سقراط نے اس فعل کو مستحسن قرار دیا حتیٰ کہ ارسطو نے لوگوں کو مشورہ دیا کہ وہ بیویاں ترک کردیں اور استلذاذ بالمثل اختیار کریں۔ ان حکماءہی کی توثیق و تحریک پر امرد پرستی خاص خاص لوگوں تک محدود کردی گئی ، یعنی صرف آزاد شہریوں اور بانکے شہواروں ہی کو استلذاذ بالمثل کا حق حاصل تھا۔ غلام اس کا تصور بھی نہ کر سکتے تھے ان کے لئے یہ جرم تھا اور اس کی سزا موت تھی۔ جب یہ شوق عام ہوگیا تو اس کو ایک معاشرتی خوبی سمجھا گیا، یونانی حکومت نے اس کی سرپرستی کے لئے مختلف قانون نافذ کئے۔۔۔
اُدھر روما کی راجدھانی میں جو چکلے تھے وہاں عورتوں سے زیادہ لڑکے تھے۔ ادھر پارس کو عجم کہتے تھے چنانچہ پارس عجم کی ترکیب اخلاقی احوال کا ایک پورا نقشہ پیش کر دیتی ہے۔ پارس سے یہ وبا اردگرد کے ملکوں میں پھیل گئی۔ افغانستان سے بلوچستان اور سندھ تک پہنچ گئی ۔ اُدھر چینی ترکستان میں عصمت فروش لڑکوں کا ایک طائفہ پیدا ہوگیا۔ سرچارلس نیپئر نے 1845ءمیں جب سندھ فتح کیا تو کراچی میں زنانہ قحبہ خانوں کے علاوہ تیس اڈے عصمت فروش لڑکوں کے بھی تھے۔
حضرت لوط ؑ کی قوم کا ذکر توریت میں آچکا ہے چنانچہ استلذاذ بالمثل کے لیے لواطت اسی سے ماخوذ ہے ، توریت میں استلذاذ بالمثل کے بڑے مرکزی شہرکا نام سدوم بیان کیا گیا ہے۔ انگریزی کا لفظ (SODOAW)اسی سے بنا ہے۔
یورپ میں کئی مسیحی فرمانرواﺅں نے قحباﺅں کی سر پرستی کی ۔وہ ان کی آمدنی سے اپنا خزانہ بڑھاتے رہے۔ لیکن بعض نے ان کا قلع قمع کرنا چاہا، ایک ہزار برس تک نسلاً بعد نسل اصلاح احوال کی کوششیں کی گئیں۔ یہاں تک کہ فاحشہ عورت کے لئے سزا مقرر ہوگئی ، لیکن فحاشی کہیں بھی نہ رُک سکی۔ بالآخر اُن کے ادارہ کو تسلیم کر لیا گیا۔ کوریات نے وینس کے سفرنامہ میں لکھا ہے کہ سترھویں صدی کے آغاز میں بیس ہزار کے قریب کسبیاں ایسی تھیں ، جن سے حکومت کو اتنا فائدہ ہوتا تھا کہ اس سے ایک درجن جنگی جہازوں کے مصارف پورے ہوتے تھے۔
یونان ڈھلا تو روما بڑھا ،وہاں عورت کا درجہ نسبتاً وقیع تھا۔ لیکن روما کا آفتاب بھی ڈھل گیا اور فحاشی کا ایسا زور بندھا کہ سسرو جیسا معلم اخلاق اور سحر بیان مقرر جس نے خطابت کے اصول مدون کئے ہیں ، نوجوانوں کے کسبیوں سے خط اُٹھانے کی تائید کرتا ہے۔ ہر چند مسیحیت نے قحبگی کی روک تھام کی لیکن بعض انفرادی مساعی کے علی الرغم مسیحی ممالک وہ کُھل کھیلے ہیں کہ اب گناہ بھی آرٹ ہوگیا۔
عالمگیر مذاہب میں اسلام پہلا مذہب ہے جس نے عورت کو نصف کائنات سے تعبیر کیا، اس کے حقوق تسلیم کئے فحش کی مخالفت کی ، زناکو حرام قرار دیا اور چکلہ کے تصور ہی کو محور کر دیا لیکن جب مسلمان بادشاہوں کے دل و دماغ اسلامیت کے تصور سے خالی ہوگئے تو سبھی بند ٹوٹ گئے۔
یہ ایک عجیب سی حقیقت ہے کہ ایشیاءکے اسلامی ملکوں میں قحبگی کو مسلمان بادشاہوں نے پروان ہی نہیں چڑھایا بلکہ اُس کی کاروباری قبا میں بعض دلچسپ پیوند بھی لگائے ہیں ، اور یہ صورت حالات ظاہر کرتی ہے کہ عورت بازار فحش کی جس منزل سے بھی گزری ہے اس کے ذمہ دار مرد ہیں اورصرف مرد ، مرد نے عورت کو کھلونا سمجھا ، چنانچہ مرد کی نفسی خواہشوں کے غلبہ کا نام ہی فحاشی ہے ۔کوئی عورت فاحشہ ہونا پسند نہیں کرتی حتیٰ کہ ایک طوائف بھی نسوانی حیا سے تہی نہیں ہوتی ۔ماسوا اُن عورتوں کے جن کی عادت پختہ ہوکر فطرت بن جاتی ہے ۔کبھی کوئی عورت بالرضاور غبت مختلف مردوں کو کھلونا بننا گوارا نہیں کرتی ۔آپ کسی بھی کسی کے دل کو ٹٹولئے اور اُس کی رُوح کے زخم سے کھرنڈ اُتار کر دیکھئے آپ کو معلوم ہوگا کہ وہ محض اس لئے مونڈھے پر بیٹھتی ہے کہ اس کی ”عورت “ مرچکی ہے اور جوباقی ہے وہ عورت نہیں بستر ہے۔ دراصل جسمانی فحاشی ایک طاعون ہے۔ اس کا مریض بھی دِق کے مریض کی طرح چاردنا چار زندگی بسر کرتا ہے۔
جن حکماءنے قحبگی کے انسداد کی تحریکوں کا جائزہ لیا ہے ، اُن کا خیال ہے کہ قحبگی ناگزیر معصیّت ہونے کے باوجود ایک مفید ادارہ ہے ۔ جو معزز گھرانوں کی عفت و عصمت کا پشتیان ہے۔ ایک فلسفی شاعر کا قول ہے۔
بلزاک لکھتا ہے طوائف خود کو جمہوریت پر قربان کر دیتی اور اپنے جسم کو معزز خاندانوں کا پستیبان بنا دیتی ہے۔ شونپہار کہتا ہے کسبیاں و حدت ازواج کی قربان گاہ پر انسانی قربانیاں ہیں۔ لیکی نے تاریخ اخلاق یورپ میں کسبیوں کو بے شمار خاندانوں کی پارسائی اور نگہبانی کا بہت بڑا بوجھ طوائف کے کاندھوں پر ہے۔
ضروری نہیں کہ ہم راویوں سے اتفاق کریں، ان کے مصنف غالباً سماج کے معاشی تعلقات پر غور نہیں کرتے حالانکہ جتنی خرابی ہے وہ طبقاتی ہے اور طبقاتی ملکوں ہی کے فکر و عمل نے طوائف کا ناگزیر معصیّت قرار دیا ہے۔
طوائف کا ایک سیاسی پہلو بھی ہے ۔اس نے اپنے ”حسن و قبح“ کے باوجود بڑے بڑے دماغوں پر حکومت کی ہے ، کئی شہنشاہوں کو زیرنگیں کیا۔ کئی مملکتوں کو اُجاڑا ، کئی فرمانرواﺅں کی جھُکایا ، عیاشوں کے خزانے لٹوادیے ۔ سلطنتوں کی بنیادیں ہلا ڈالیں ، حرمات شاہی کو خون کے آنسو رُلوایا ، نسل انسانی کو جنگوں میں جھونکا ، اور جن کی گردنوں میں پگھلا ہوا سیسہ تھا انہیں مجبور کیا کہ موم بتی کی طرح پگھلیں۔ چنانچہ یورپ اور ایشیاءکے ااوراق تاریخ کا ایک بڑا حصہ ان کے اذکار و اشغال سے پُر ہے ، مثلاً :
طوطیہ وی آرگونہ شعریات ہسپانوی ادب کا شاہکار سمجھی جاتی ہیں ۔دروینکا فرانکو یونانی علم الاصنام کی ماہرہ ہوتی ہے ۔ فرانس کا شہنشاہ ہنری سوم اس کی ملاقات کو حاضر ہوا تھا ، اور چلتے وقت اس کی تصویر لے گیا تھا۔ نینون وی لنکلوس کے حُسن و جمال کا اتنا شہرہ تھا کہ خاندان سیورزنہ کی تین پُشتیں اُس کے چاہنے والوں میں گذریں۔ اس کا مکان بڑے بڑے درباروں کو مات کرتا تھا۔ رہو ڈوپی ایک مشہور کسبی ہوئی ہے جس نے مصری اہرام میں سے ایک ہرم بنوایا تھا۔ پیریکلز کے متعلق پلوٹارک نے لکھا ہے کہ اس نے اسپاسیا نام کی ایک کسبی کو خوش کرنے کے لئے ایتھنز کو جنگ میں جھونک دیا۔ خود سقراط اس کی صحبت میں بیٹھا کرتا تھا۔
فرانسیسی افسانہ نگاروں کی نوجوان پود نے ان نظریوں کی اشاعت کے لئے اپنا سارا زور بیان صرف کر ڈالا۔ اُنیسویں صدر کی آغاز میں ژورژساں ایک مشہور فرانسیسی ادیبہ ہوئی ہے جس نے جنسی تعلقات کی رنگارنگی پر زور دیا ہے۔ الغرض پہلی عالمی جنگ (1914-1918) میں یورپ نے اخلاقی قدروں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ تمام یورپی ملکوں میں فرانس بازی لے گیا فرانسیسی اکابر کا ایک ہی نعرہ تھا ۔۔۔ ’’بچے جنواور جناؤ‘‘ مناکحت کی ضرورت نہیں ، کنواری یا بیوہ جو عورت بھی وطن کے لئے رحم کو رضا کارانہ پیش کرتی ہے وہ عزت کو مستحق ہے۔ ان عورتوں کا اُم الوطن کا خطاب دیا گیا۔ ایک فرانسیسی قائد لکھتا ہے۔
’’پچھلے پچیس 25سال میں ہم کو اتنی کامیابی ہوئی ہے کہ ’’حرامی بچہ ‘‘ حلالی بچے کا ہم رتبہ ہوگیا ہے۔ اب صرف اتنی کسرباقی ہے کہ صرف پہلی ہی قسم کے بچے پیدا ہوا کریں تاکہ تقابل کا سوال باقی نہ رہے ۔‘‘
ایک معلمہ نا جائز بچہ جننے کے جرم میں معطل کر دی گئی تھی۔ اس کو فرانس کی وزارتِ تعلیم نے اس بنا پر بحال کیا کہ نکاح کے بغیر ماں بننا زیادہ جمہوری طریقہ ہے۔ فرانس کے 127ویں ڈویژن کے کمانڈر نے دورانِ جنگ میں ایک حکم نامہ جاری کیا تھا جس کے الفاظ یہ تھے۔
معلوم ہوا ہے کہ فوجی قحبہ خانوں پر بندوقچیوں کے ہجوم اور اجارہ کی وجہ سے سوار اور پیادہ سپاہیوں کو شکایت ہے ۔ہائی کمانڈ عورتوں کی تعداد بڑھانے کے لئے کوشش کر رہاہے ، جب تک یہ انتظام نہیں ہوتا بند وقچیوں کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ زیادہ دیر تک اندر نہ رہا کریں اور اپنی خواہشات کی تسکین میں عجلت سے کام لیں۔‘‘
جنگ عظیم نے تجارتی قحبہ خانوں کو نہیں پڑھایا بلکہ خیراتی قحبہ خانے بھی قائم کئے ۔ ان خیراتی قحبہ خانوں کا مقصد فوجیوں کی دلجوئی ، فرانس کی وزارتِ جنگ نے ان خیراتی قحبوں کو (WAR GOOD MOTHER) کا لقب دیا ، اُردو اس کے ترجمے ہی سے معذور ہے۔ اب کئی برس سے فرانس میں قحبگی کا پیشہ انفرادی نہیں رہا بلکہ اجتماعی تجارت اور اجتماعی صنعت کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ کئی لمیٹڈ کمپنیاں قائم ہیں ۔ اُن کے کارندے بڑی بڑی تنخواہیں پاتے ہیں ۔ اخبارات میں ان کے اشتہارات چھپتے ہیں ، جن ملازموں کے سپرد ملک کے مختلف حصوں سے ان عروسانِ یک شب کی فرامہی کا کام ہوتا ہے وہ اس پیشہ کی باقاعدہ فتنی تربیت حاصل کرتے اور دفتری معیار پر کام چلاتے ہیں۔
جرمی میں ڈاکٹر ماگنوش نے لواطت کے حق میں چھ سال تک جدوجہد کی اور حکومت کو مجبور کر دیا کہ وہ احتساب اُٹھالے ڈاکٹر ماگنوش کا نقطہ نگاہ یہ تھا کہ جانبین رضا مندہوں تو حکومت کے لئے کونسا عذر رہ جاتا ہے ؟ کیا اس مملکت کو نقصان پہنچتا ہے ؟ کیا یہ زیادہ فطری طریقہ نہیں؟ جو لوگ اس کو غیر فطری کہتے ہیں اُن کے پاس کوئی دلیل نہیں وہ محض ایک فرسودہ قوم دُہرانے چلے جاتے ہیں ۔ اس کے برعکس عورت کر مرد سے اختلاط کا خمیازہ بھُگتنا پڑتا ہے ، یا تو وہ ماں بن جاتی ہے یا بچے ضائع کرتی ہے، لیکن لواطت میں اس قسم کا کوئی خطرہ نہیں بلکہ اس ہم جنسی سے قحباؤں کی افزونی بھی رُک سکتی ہے۔
انگلستان بھی اسی تہذیب میں ڈوبا ہوا ہے اور اب تو وہاں امر پرستی قانوناً آزاد ہوگئی ہے۔ امریکی قحبہ خانے آرٹ کے درجے مین ہیں۔ اس کی بدولت امریکہ میں ہرسال کم سے کم 15لاکھ حمل ساقط ہوتے ہیں اور وہ ہزار ہا حرامی بچے اس پر مستزاد ہیں جو موت کے گاٹ اُتار دیے جاتے ہیں ۔ کئی سال ہوئے ہیں مجلسِ اقوام نے مختلف ملکوں سے فاحشات کے جو اعداد و شمار حاصل کئے تھے وہ برائے نام ہیں۔ جتنی فاحشات تمام عالمی ملکوں میں بیان کی گئی ہیں اُتنی فاحشات میں سے کسی ایک ملک میں ہیں۔ اس بورژو اسماج نے (جو استحصال کے نقطہ آخر تک پہنچ چکا ہے) دو چزیں وافر کردی ہیں ۔
(۱)۔ محنت کی لوٹ کھوٹ
(۲)۔ عصمت کی خریدو فروخت ۔
سیاسی نظام کے ڈھیلا پڑجانے کی وجہ سے پیشہ ور فاحشات تو ختم ہو رہی ہیں مگر اُن کی جگہ غیر پیشہ ور فاحشات نے لے لی ہے۔ ہر متمول انسان کو ذہنی و جسمانی عیاشی کے لئے پورے سماج پر دسترس ہے تمام معاشرہ ایک طوائف ہے اور پورا آرٹ ایک چکلہ ، رسل کو اندیشہ تھا کہ آئندہ نصف دُنیا کے باپ وزراء ہوں گے یا پادری۔؟
ایک ہی تنور کی سوختہ
کمہار نے ایک خوبصورت آبخورہ بنایا، لوگوں نے اُس کو جام صہبا بنا لیا۔۔۔ کمہار نے ایک جام صہبا بنایا اور لوگوں نے اس کو آبخورہ سمجھ کر مسجد کی دیوار پر رکھ دیا تو پھر کیا اُس سے مٹی کی حقیقت بدل گئی ؟ پیالہ میں چاہے شراب بھر دو چاہے زمزم ۔۔۔ عورت کو بیسوا بنا دو یا گھر کی ملکہ ، جو چاہے بنا دو، لیکن ہر حال میں وہ عورت ہی ہے۔ (قاضی عبدالغفار )
ایشیا میں میں طوائف کا معاشرتی نظام یورپ کے معاشری نظام سے مختلف ہے لیکن جنسی اعتبار سے دونوں میں ہمرنگی ہے۔ بازاری شراب میں جو فرق ہے اس کی بڑی وجہ ایک تو مشرق و مغرب کے جُدا گانہ اخلاقی نظریے ہیں ، دوسری عورت کے متعلق دونوں کے عقائد کا اختلاف ہے، ویسے یورپی عورت ایشیائی عورت سے سماجی آزادی میں کجروی کی حد تک آگے نکل چکی ہے اور شرم و حیا کے وہ معیار جو مشرق کی جان تصور ہوتے ہیں اس میں بالکل نہیں ہیں۔ اس کے برعکس ایشیائی ملکوں میں ایک طوائف بھی کسی حد تک اخلاق کے ظواہر کی پابندی کرتی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ایشیا ہر بڑے مذہب کا مولدو مسکن رہا ہے ان مذاہب نے ایشیائی قوموں کو ایک اخلاق مہیا کیا جس سے ذہنوں میں امر نواہی کا ایک تصور جاگزیں ہوگیا یہاں کسی فلسفی کو یہ جرأت نہیں ہوسکی کہ فحاشی کو جواز پیدا کریں اور یہ کہیں کہ طوائف ایک ناگزیر ادارہ ہے۔
لیکن اس اخلاقی کروفر کے باوجود ایشیائی ملکوں میں فحاشی محونہ ہوئی اس کی مختلف صورتیں ہر حال میں اور ہمیشہ قائم رہی ہیں چنانچہ ڈیڑھ ہزار برس پہلے کی نصنیف کام شاشتریں ہندوستان کی دھارمک فحاشی کا سراغ ملتا ہے۔ جنوبی ہند کے لوگ اپنی بیٹیوں کو مندروں کے بھینٹ چڑھا دیتے تھے جنہیں دیوداسیاں کہا جاتا ، یہ کنیاتیں ‘ سنگیت اور ناچ کی تعلیم حاصل کرتیں ، جب تک جوانی کا روپ جھلمل جھلمل کرتا ان کے قدر دان بھی موجود رہتے جب جوانی ڈھل جاتی تو انہیں مندروں سے نکال دیا جاتا۔ در بدر بھیک مانگ کر گزارہ کرتیں ۔ان سے کسی ذات کا کوئی ہندو شادی نہ کر سکتا تھا ، ان سے مندر کے مہنت خوش وقت ہوتے ، یا تعلقداروں اور زمینداروں کو ترغیب دے کر انہیں داشتہ رکھنے پر آمادہ کیا جاتا تھا۔
جاری ہے
——
آپکو یہ ناول کیسا لگا؟
کمنٹس میں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔
اُدھر روما کی راجدھانی میں جو چکلے تھے وہاں عورتوں سے زیادہ لڑکے تھے۔ ادھر پارس کو عجم کہتے تھے چنانچہ پارس عجم کی ترکیب اخلاقی احوال کا ایک پورا نقشہ پیش کر دیتی ہے۔ پارس سے یہ وبا اردگرد کے ملکوں میں پھیل گئی۔ افغانستان سے بلوچستان اور سندھ تک پہنچ گئی ۔ اُدھر چینی ترکستان میں عصمت فروش لڑکوں کا ایک طائفہ پیدا ہوگیا۔ سرچارلس نیپئر نے 1845ءمیں جب سندھ فتح کیا تو کراچی میں زنانہ قحبہ خانوں کے علاوہ تیس اڈے عصمت فروش لڑکوں کے بھی تھے۔
حضرت لوط ؑ کی قوم کا ذکر توریت میں آچکا ہے چنانچہ استلذاذ بالمثل کے لیے لواطت اسی سے ماخوذ ہے ، توریت میں استلذاذ بالمثل کے بڑے مرکزی شہرکا نام سدوم بیان کیا گیا ہے۔ انگریزی کا لفظ (SODOAW)اسی سے بنا ہے۔
یورپ میں کئی مسیحی فرمانرواﺅں نے قحباﺅں کی سر پرستی کی ۔وہ ان کی آمدنی سے اپنا خزانہ بڑھاتے رہے۔ لیکن بعض نے ان کا قلع قمع کرنا چاہا، ایک ہزار برس تک نسلاً بعد نسل اصلاح احوال کی کوششیں کی گئیں۔ یہاں تک کہ فاحشہ عورت کے لئے سزا مقرر ہوگئی ، لیکن فحاشی کہیں بھی نہ رُک سکی۔ بالآخر اُن کے ادارہ کو تسلیم کر لیا گیا۔ کوریات نے وینس کے سفرنامہ میں لکھا ہے کہ سترھویں صدی کے آغاز میں بیس ہزار کے قریب کسبیاں ایسی تھیں ، جن سے حکومت کو اتنا فائدہ ہوتا تھا کہ اس سے ایک درجن جنگی جہازوں کے مصارف پورے ہوتے تھے۔
یونان ڈھلا تو روما بڑھا ،وہاں عورت کا درجہ نسبتاً وقیع تھا۔ لیکن روما کا آفتاب بھی ڈھل گیا اور فحاشی کا ایسا زور بندھا کہ سسرو جیسا معلم اخلاق اور سحر بیان مقرر جس نے خطابت کے اصول مدون کئے ہیں ، نوجوانوں کے کسبیوں سے خط اُٹھانے کی تائید کرتا ہے۔ ہر چند مسیحیت نے قحبگی کی روک تھام کی لیکن بعض انفرادی مساعی کے علی الرغم مسیحی ممالک وہ کُھل کھیلے ہیں کہ اب گناہ بھی آرٹ ہوگیا۔
عالمگیر مذاہب میں اسلام پہلا مذہب ہے جس نے عورت کو نصف کائنات سے تعبیر کیا، اس کے حقوق تسلیم کئے فحش کی مخالفت کی ، زناکو حرام قرار دیا اور چکلہ کے تصور ہی کو محور کر دیا لیکن جب مسلمان بادشاہوں کے دل و دماغ اسلامیت کے تصور سے خالی ہوگئے تو سبھی بند ٹوٹ گئے۔
یہ ایک عجیب سی حقیقت ہے کہ ایشیاءکے اسلامی ملکوں میں قحبگی کو مسلمان بادشاہوں نے پروان ہی نہیں چڑھایا بلکہ اُس کی کاروباری قبا میں بعض دلچسپ پیوند بھی لگائے ہیں ، اور یہ صورت حالات ظاہر کرتی ہے کہ عورت بازار فحش کی جس منزل سے بھی گزری ہے اس کے ذمہ دار مرد ہیں اورصرف مرد ، مرد نے عورت کو کھلونا سمجھا ، چنانچہ مرد کی نفسی خواہشوں کے غلبہ کا نام ہی فحاشی ہے ۔کوئی عورت فاحشہ ہونا پسند نہیں کرتی حتیٰ کہ ایک طوائف بھی نسوانی حیا سے تہی نہیں ہوتی ۔ماسوا اُن عورتوں کے جن کی عادت پختہ ہوکر فطرت بن جاتی ہے ۔کبھی کوئی عورت بالرضاور غبت مختلف مردوں کو کھلونا بننا گوارا نہیں کرتی ۔آپ کسی بھی کسی کے دل کو ٹٹولئے اور اُس کی رُوح کے زخم سے کھرنڈ اُتار کر دیکھئے آپ کو معلوم ہوگا کہ وہ محض اس لئے مونڈھے پر بیٹھتی ہے کہ اس کی ”عورت “ مرچکی ہے اور جوباقی ہے وہ عورت نہیں بستر ہے۔ دراصل جسمانی فحاشی ایک طاعون ہے۔ اس کا مریض بھی دِق کے مریض کی طرح چاردنا چار زندگی بسر کرتا ہے۔
جن حکماءنے قحبگی کے انسداد کی تحریکوں کا جائزہ لیا ہے ، اُن کا خیال ہے کہ قحبگی ناگزیر معصیّت ہونے کے باوجود ایک مفید ادارہ ہے ۔ جو معزز گھرانوں کی عفت و عصمت کا پشتیان ہے۔ ایک فلسفی شاعر کا قول ہے۔
بلزاک لکھتا ہے طوائف خود کو جمہوریت پر قربان کر دیتی اور اپنے جسم کو معزز خاندانوں کا پستیبان بنا دیتی ہے۔ شونپہار کہتا ہے کسبیاں و حدت ازواج کی قربان گاہ پر انسانی قربانیاں ہیں۔ لیکی نے تاریخ اخلاق یورپ میں کسبیوں کو بے شمار خاندانوں کی پارسائی اور نگہبانی کا بہت بڑا بوجھ طوائف کے کاندھوں پر ہے۔
ضروری نہیں کہ ہم راویوں سے اتفاق کریں، ان کے مصنف غالباً سماج کے معاشی تعلقات پر غور نہیں کرتے حالانکہ جتنی خرابی ہے وہ طبقاتی ہے اور طبقاتی ملکوں ہی کے فکر و عمل نے طوائف کا ناگزیر معصیّت قرار دیا ہے۔
طوائف کا ایک سیاسی پہلو بھی ہے ۔اس نے اپنے ”حسن و قبح“ کے باوجود بڑے بڑے دماغوں پر حکومت کی ہے ، کئی شہنشاہوں کو زیرنگیں کیا۔ کئی مملکتوں کو اُجاڑا ، کئی فرمانرواﺅں کی جھُکایا ، عیاشوں کے خزانے لٹوادیے ۔ سلطنتوں کی بنیادیں ہلا ڈالیں ، حرمات شاہی کو خون کے آنسو رُلوایا ، نسل انسانی کو جنگوں میں جھونکا ، اور جن کی گردنوں میں پگھلا ہوا سیسہ تھا انہیں مجبور کیا کہ موم بتی کی طرح پگھلیں۔ چنانچہ یورپ اور ایشیاءکے ااوراق تاریخ کا ایک بڑا حصہ ان کے اذکار و اشغال سے پُر ہے ، مثلاً :
طوطیہ وی آرگونہ شعریات ہسپانوی ادب کا شاہکار سمجھی جاتی ہیں ۔دروینکا فرانکو یونانی علم الاصنام کی ماہرہ ہوتی ہے ۔ فرانس کا شہنشاہ ہنری سوم اس کی ملاقات کو حاضر ہوا تھا ، اور چلتے وقت اس کی تصویر لے گیا تھا۔ نینون وی لنکلوس کے حُسن و جمال کا اتنا شہرہ تھا کہ خاندان سیورزنہ کی تین پُشتیں اُس کے چاہنے والوں میں گذریں۔ اس کا مکان بڑے بڑے درباروں کو مات کرتا تھا۔ رہو ڈوپی ایک مشہور کسبی ہوئی ہے جس نے مصری اہرام میں سے ایک ہرم بنوایا تھا۔ پیریکلز کے متعلق پلوٹارک نے لکھا ہے کہ اس نے اسپاسیا نام کی ایک کسبی کو خوش کرنے کے لئے ایتھنز کو جنگ میں جھونک دیا۔ خود سقراط اس کی صحبت میں بیٹھا کرتا تھا۔
فرانسیسی افسانہ نگاروں کی نوجوان پود نے ان نظریوں کی اشاعت کے لئے اپنا سارا زور بیان صرف کر ڈالا۔ اُنیسویں صدر کی آغاز میں ژورژساں ایک مشہور فرانسیسی ادیبہ ہوئی ہے جس نے جنسی تعلقات کی رنگارنگی پر زور دیا ہے۔ الغرض پہلی عالمی جنگ (1914-1918) میں یورپ نے اخلاقی قدروں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ تمام یورپی ملکوں میں فرانس بازی لے گیا فرانسیسی اکابر کا ایک ہی نعرہ تھا ۔۔۔ ’’بچے جنواور جناؤ‘‘ مناکحت کی ضرورت نہیں ، کنواری یا بیوہ جو عورت بھی وطن کے لئے رحم کو رضا کارانہ پیش کرتی ہے وہ عزت کو مستحق ہے۔ ان عورتوں کا اُم الوطن کا خطاب دیا گیا۔ ایک فرانسیسی قائد لکھتا ہے۔
’’پچھلے پچیس 25سال میں ہم کو اتنی کامیابی ہوئی ہے کہ ’’حرامی بچہ ‘‘ حلالی بچے کا ہم رتبہ ہوگیا ہے۔ اب صرف اتنی کسرباقی ہے کہ صرف پہلی ہی قسم کے بچے پیدا ہوا کریں تاکہ تقابل کا سوال باقی نہ رہے ۔‘‘
ایک معلمہ نا جائز بچہ جننے کے جرم میں معطل کر دی گئی تھی۔ اس کو فرانس کی وزارتِ تعلیم نے اس بنا پر بحال کیا کہ نکاح کے بغیر ماں بننا زیادہ جمہوری طریقہ ہے۔ فرانس کے 127ویں ڈویژن کے کمانڈر نے دورانِ جنگ میں ایک حکم نامہ جاری کیا تھا جس کے الفاظ یہ تھے۔
معلوم ہوا ہے کہ فوجی قحبہ خانوں پر بندوقچیوں کے ہجوم اور اجارہ کی وجہ سے سوار اور پیادہ سپاہیوں کو شکایت ہے ۔ہائی کمانڈ عورتوں کی تعداد بڑھانے کے لئے کوشش کر رہاہے ، جب تک یہ انتظام نہیں ہوتا بند وقچیوں کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ زیادہ دیر تک اندر نہ رہا کریں اور اپنی خواہشات کی تسکین میں عجلت سے کام لیں۔‘‘
جنگ عظیم نے تجارتی قحبہ خانوں کو نہیں پڑھایا بلکہ خیراتی قحبہ خانے بھی قائم کئے ۔ ان خیراتی قحبہ خانوں کا مقصد فوجیوں کی دلجوئی ، فرانس کی وزارتِ جنگ نے ان خیراتی قحبوں کو (WAR GOOD MOTHER) کا لقب دیا ، اُردو اس کے ترجمے ہی سے معذور ہے۔ اب کئی برس سے فرانس میں قحبگی کا پیشہ انفرادی نہیں رہا بلکہ اجتماعی تجارت اور اجتماعی صنعت کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ کئی لمیٹڈ کمپنیاں قائم ہیں ۔ اُن کے کارندے بڑی بڑی تنخواہیں پاتے ہیں ۔ اخبارات میں ان کے اشتہارات چھپتے ہیں ، جن ملازموں کے سپرد ملک کے مختلف حصوں سے ان عروسانِ یک شب کی فرامہی کا کام ہوتا ہے وہ اس پیشہ کی باقاعدہ فتنی تربیت حاصل کرتے اور دفتری معیار پر کام چلاتے ہیں۔
جرمی میں ڈاکٹر ماگنوش نے لواطت کے حق میں چھ سال تک جدوجہد کی اور حکومت کو مجبور کر دیا کہ وہ احتساب اُٹھالے ڈاکٹر ماگنوش کا نقطہ نگاہ یہ تھا کہ جانبین رضا مندہوں تو حکومت کے لئے کونسا عذر رہ جاتا ہے ؟ کیا اس مملکت کو نقصان پہنچتا ہے ؟ کیا یہ زیادہ فطری طریقہ نہیں؟ جو لوگ اس کو غیر فطری کہتے ہیں اُن کے پاس کوئی دلیل نہیں وہ محض ایک فرسودہ قوم دُہرانے چلے جاتے ہیں ۔ اس کے برعکس عورت کر مرد سے اختلاط کا خمیازہ بھُگتنا پڑتا ہے ، یا تو وہ ماں بن جاتی ہے یا بچے ضائع کرتی ہے، لیکن لواطت میں اس قسم کا کوئی خطرہ نہیں بلکہ اس ہم جنسی سے قحباؤں کی افزونی بھی رُک سکتی ہے۔
انگلستان بھی اسی تہذیب میں ڈوبا ہوا ہے اور اب تو وہاں امر پرستی قانوناً آزاد ہوگئی ہے۔ امریکی قحبہ خانے آرٹ کے درجے مین ہیں۔ اس کی بدولت امریکہ میں ہرسال کم سے کم 15لاکھ حمل ساقط ہوتے ہیں اور وہ ہزار ہا حرامی بچے اس پر مستزاد ہیں جو موت کے گاٹ اُتار دیے جاتے ہیں ۔ کئی سال ہوئے ہیں مجلسِ اقوام نے مختلف ملکوں سے فاحشات کے جو اعداد و شمار حاصل کئے تھے وہ برائے نام ہیں۔ جتنی فاحشات تمام عالمی ملکوں میں بیان کی گئی ہیں اُتنی فاحشات میں سے کسی ایک ملک میں ہیں۔ اس بورژو اسماج نے (جو استحصال کے نقطہ آخر تک پہنچ چکا ہے) دو چزیں وافر کردی ہیں ۔
(۱)۔ محنت کی لوٹ کھوٹ
(۲)۔ عصمت کی خریدو فروخت ۔
سیاسی نظام کے ڈھیلا پڑجانے کی وجہ سے پیشہ ور فاحشات تو ختم ہو رہی ہیں مگر اُن کی جگہ غیر پیشہ ور فاحشات نے لے لی ہے۔ ہر متمول انسان کو ذہنی و جسمانی عیاشی کے لئے پورے سماج پر دسترس ہے تمام معاشرہ ایک طوائف ہے اور پورا آرٹ ایک چکلہ ، رسل کو اندیشہ تھا کہ آئندہ نصف دُنیا کے باپ وزراء ہوں گے یا پادری۔؟
ایک ہی تنور کی سوختہ
کمہار نے ایک خوبصورت آبخورہ بنایا، لوگوں نے اُس کو جام صہبا بنا لیا۔۔۔ کمہار نے ایک جام صہبا بنایا اور لوگوں نے اس کو آبخورہ سمجھ کر مسجد کی دیوار پر رکھ دیا تو پھر کیا اُس سے مٹی کی حقیقت بدل گئی ؟ پیالہ میں چاہے شراب بھر دو چاہے زمزم ۔۔۔ عورت کو بیسوا بنا دو یا گھر کی ملکہ ، جو چاہے بنا دو، لیکن ہر حال میں وہ عورت ہی ہے۔ (قاضی عبدالغفار )
ایشیا میں میں طوائف کا معاشرتی نظام یورپ کے معاشری نظام سے مختلف ہے لیکن جنسی اعتبار سے دونوں میں ہمرنگی ہے۔ بازاری شراب میں جو فرق ہے اس کی بڑی وجہ ایک تو مشرق و مغرب کے جُدا گانہ اخلاقی نظریے ہیں ، دوسری عورت کے متعلق دونوں کے عقائد کا اختلاف ہے، ویسے یورپی عورت ایشیائی عورت سے سماجی آزادی میں کجروی کی حد تک آگے نکل چکی ہے اور شرم و حیا کے وہ معیار جو مشرق کی جان تصور ہوتے ہیں اس میں بالکل نہیں ہیں۔ اس کے برعکس ایشیائی ملکوں میں ایک طوائف بھی کسی حد تک اخلاق کے ظواہر کی پابندی کرتی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ایشیا ہر بڑے مذہب کا مولدو مسکن رہا ہے ان مذاہب نے ایشیائی قوموں کو ایک اخلاق مہیا کیا جس سے ذہنوں میں امر نواہی کا ایک تصور جاگزیں ہوگیا یہاں کسی فلسفی کو یہ جرأت نہیں ہوسکی کہ فحاشی کو جواز پیدا کریں اور یہ کہیں کہ طوائف ایک ناگزیر ادارہ ہے۔
لیکن اس اخلاقی کروفر کے باوجود ایشیائی ملکوں میں فحاشی محونہ ہوئی اس کی مختلف صورتیں ہر حال میں اور ہمیشہ قائم رہی ہیں چنانچہ ڈیڑھ ہزار برس پہلے کی نصنیف کام شاشتریں ہندوستان کی دھارمک فحاشی کا سراغ ملتا ہے۔ جنوبی ہند کے لوگ اپنی بیٹیوں کو مندروں کے بھینٹ چڑھا دیتے تھے جنہیں دیوداسیاں کہا جاتا ، یہ کنیاتیں ‘ سنگیت اور ناچ کی تعلیم حاصل کرتیں ، جب تک جوانی کا روپ جھلمل جھلمل کرتا ان کے قدر دان بھی موجود رہتے جب جوانی ڈھل جاتی تو انہیں مندروں سے نکال دیا جاتا۔ در بدر بھیک مانگ کر گزارہ کرتیں ۔ان سے کسی ذات کا کوئی ہندو شادی نہ کر سکتا تھا ، ان سے مندر کے مہنت خوش وقت ہوتے ، یا تعلقداروں اور زمینداروں کو ترغیب دے کر انہیں داشتہ رکھنے پر آمادہ کیا جاتا تھا۔
جاری ہے
——
آپکو یہ ناول کیسا لگا؟
کمنٹس میں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔