اُس بازار میں ۔ طوائف کی ہوش ربا داستان الم از شو رش کاشمیری ۔ قسط نمبر 5
چکلہ کا لفظ کیونکر وضع ہوا ؟ اس پر لسانیات کے ماہر ہی و ثوق سے کچھ کہہ سکتے ہیں۔ لغت میں چکلہ کے معنی قحبہ خانہ کے ہیں۔ اس کا مادہ چکیدن ہوا جس کے معنی جانور کے اڈے پر بیٹھنے کے ہیں۔ دو مصدر اور ہیں چکاندن اور چکانیدن جو ٹپکانے کے معنی ہیں آتے ہیں، چکلہ کا لفظ ان سے بھی ماخوذ ہوسکتا ہے۔ خود چک کا لفظ مختلف المعنی ہے زمین کے معنی میں بھی آتا ہے ، اور مردانہ عضو کے لئے بھی ، اسی طرح چکلہ کی املا غور طلب ہے۔ ۔۔ آہستہ آہستہ رنڈیوں کے صفاتی ناموں میں ان کی پیشہ ورانہ بوقلمونی سے اضافہ ہوتا گیا بالخصوص اُس دور میں جب سلطنت اودھ پر شجاع الدولہ اور پھر واجد علی شاہ کا پرچم لہراریا تھا اور دہلی میں محمد شاہی امراء عورتوں کو چوسر کی نردیں سمجھتے تھے۔ اشرف صبوحی کے الفاظ میں۔
’’شہزادے پانی میں پالتی مارے ہوئے بیٹھے ہیں۔ ایک زانو پر پیچوان لگا ہے دوسری پر رنڈی بیٹھی ہے ، دھنواں اُڑاتے اور ملہار سنتے چلے جاتے ہیں۔ ‘‘
یہ زمانہ سلطنت کی ویرانی کا تھا، صرف ظاہری رسموں اور معنوی رواجوں کا طنطنہ باقی تھا جس نسبت سے بازو کی قوت گھٹتی گئی اُسی نسبت سے زبان کی نزاکت بڑھتی گئی ، جن کا پیشہ ناچنا اور گانا تھا اُن کو طوائف کہا گیا ، جن کا کاروبار بدن کی فروخت ٹھیرا وہ کسبیاں کہلائیں یا کنچنیاں اور جو محض ’’بازاری مال‘‘ تھیں۔ یعنی روپے اور جسم میں تبادلہ کرنے والی وہ ٹکیائیاں ٹھیریں۔ اُن کے لئے بیسوا رنڈی ، پاتر اور دیشیا کے لفظ معنی بھی مستعمل ہیں۔ جن میں ایک باریک سامعنوی فرق ہے اور اب تو بعض کمین ذاتیں بھی ان میں محسوب ہوتی ہیں مثلاً مراثنیں، ڈوغیاں اور پیرنیاں وغیرہ۔۔۔ کنچن کوئی ذات نہیں صرف پیشے کی رعایت سے ایک ذات بن گئی ہے اور اب ہر اس جمعیت انسانی کو کنچن کہتے ہیں جن کا تعلق طوائفوں اور کسبیوں کے خاندان سے ہوتاہے۔
شجاع الدولہ اور واجد علی شاہ کے لکھنؤ نے طوائفیت کی مختلف شاخوں کو پروان چڑھایا۔ ایک ایسا معاشرہ پیدا ہوگیا کہ مسلمان بادشاہوں کی پوری تاریخ میں طوائف کے عروج کی اتنی بڑی مثال نہیں ملتی ۔
شجاع الدولہ نواب صدر جنگ کا بیٹا تھا، جب اس کی انگریزوں سے صلح ہوگئی تو اُس نے فیض آباد کا سفر اختیار کیا۔ احمد خاں بنگش نے اس کے قصدِ سفر سے پہلے تین نصیحتیں کیں، اولاً مغلوں پر اعتبار نہ کرنا ، ثانیاً فیض آبا دکو دارالحکومت بنانا ، ثالثاً خواجہ سراؤں سے کام لینا۔ شجاع الدولہ نے ان تینوں باتوں کو آویزہ گوش بنالیا، پہلا کام یہ کیا کہ فوج کی کمان خواجہ سراؤں کو سونپ دی۔ سب سے بڑے ڈویژن میں چودہ ہزار سپاہی تھے جن کی وردی کا رنگ سرخ تھا۔ خواجہ سرالسبنت علی خاں کو ان کا کمانڈر بنایا، اسی نام کے ایک دوسری خواجہ سرا کی ماتحتی میں ایک ہزار سیہ پوش گھڑ سوا ر تھا۔ خواجہ سراعنبر علی کی زیر ہدایت پاپخ سو گھڑ سواروں کا دستہ اور خواجہ سرا محبوب علی کی ماتحتی میں پانچو شہسواروں کی چار پلٹنیں ، ایک اور خوش چہرہ خواجہ سرا لطافت علی کے ماتحت فوج کے اتنے ہی دستے تھے۔ علاوہ ازیں شجاع الدولہ کے دربار میں بہت سے زنانہ اور مردانہ طائفے تھے۔ شرر مرحوم نے لکھا ہے کہ شجاع الدولہ کا دل ہمیشہ خوبصورت عورتوں سے پُرتھا ۔ یہاں تک کہ سلطنت کا چپہ چپہ الناس علی دین ملوکھم کی جوہ گاہ بنا ہوا تھا، کئی نامور ڈیرہ دارنیاں تھیں جن کے ہمراہ عالیشان خیمے رہتے تھے ، جب شجاع الدولہ سلطنت کے مختلف اضلاع کا دورہ کرتا تو بادشاہ کے ہمراہ خیمے بھی ہوتے ، جہاں جی چاہتا خیمے گاڑ دیے جاتے ۔محفل جمتی اور آناً فاناً رقص و نغمہ کا چمن آراستہ ہوجاتا۔
واجد علی شاہ کے عہد میں شجاع الدولہ کا لگایا ہوا پودا ایک تناور درخت بن گیا۔ حتیٰ کہ واجد علی شاہ اور لہوو لعب ہم معنی الفاظ ہوگئے۔ واجد علی شاہ بچپن ہی سے حسن و نغمہ کی گود میں پلا تھا۔ اور ابھی سن شعور کو بھی نہ پہنچا تھا کہ اس کی عمر کے بہت سے اُجلے ورق طوائفوں کی ہم آغوشی سے داغدار ہوچکے تھے، جب تخت پر بیٹھا تو عورتوں سے اس کی رغبت کا یہ عالم تھا کہ اس نے فوج کی کایا پلٹ دی، رسالوں کا نام بانگا ، ترچھا اور گھنگھور رکھا۔ پلٹنوں کے نام اختری اور نادر ، جودو مشہور طوائفوں کے نام پر تھے ، واجد علی شاہ متعہ کو مذہباً جائز سمجھتا تھا۔ ہر وقت عورت جو اس کی ہوس کا شکار رہتی اس کو متعہ کے خطاب سے نوازتا۔ ایک دفعہ بھنگن پرجی آگیا تو صرف اُسے فیضیاب کر ڈالا بلکہ نواب مصفا بیگم کے لقب سے ملقب کیا ، کسی بہشتن پر دل للچایا تو اُس کو نواب آب رساں بیگم بنا ڈالا ۔ واجد علی شاہ مسلمان فرمانرواؤں میں پہلا بادشاہ تھا جس نے خوب صورت عورتوں کی ایک چھوٹی سی فوج بنائی۔
آج فوجوں میں جو زنانہ دستے نظر آتے ہیں۔ وہ غالباً اُسی نظیر پر قائم ہیں ،خود بادشاہ کا وزیر علی نقی خاں ارباب نشاط میں سے تھا۔ اُس کی بیٹی نواب اختر محل شاہ کی ملکہ تھیں ، اکثر نابالغ اور کم سن لڑکیاں بادشاہ کی نظر کا شکار ہوجاتیں ۔ تو انہیں غیر ممتوعہ بنا کر رکھ لیا جاتا۔ اور جوان ہوتے ہی ممتوعہ بنا لیا جاتا پھر مختلف حالات میں اُن کے سپرد گانے اور ناچنے کا کام ہوتا۔ یہ اتنی زیادہ تھیں کہ ان کے طائفے بنا دیے گئے ، ہر طائفہ کا نام اُن کی خصوصیت پر رکھا گیا مثلاً:
رادھا منزل والیاں ، جھومر والیاں ، لٹکن والیاں، ساردھا منزل والیاں ، نتھ والیاں ، گھونگھٹ والیاں ، نقل والیاں اور اچھوتیاں۔ ان میں اکثر بادشاہ کے قریب سلطانی خانہ میں رہتیں۔ بعض کو کوٹھیوں میں محل سرائیں ملی ہوتی تھیں۔ جس کے ہاں بچہ پیدا ہوتا اُسے محل کا خطاب دیا جاتا۔ جو صاحب اولادنہ ہوتی اس کو بیگم کہتے۔ بیگموں کی تنخواہ روٹی کپڑے کے علاوہ چھ سے بیس روپے ماہانہ ہوتی البتہ محلات کے زمرے میں آتے ہی دو سو روپے ماہوار ہوجاتے اور رہنے کو محل اسرا اور ڈیوڑھی میں دربان وغیرہ دیے جاتے تھے۔ ہر ممتوعہ کا نام چن کر رکھا جاتا۔ پری جمال بیگم ، خور شمائل بیگم ، گُل رخ بیگم اور نازک اندام بیگم۔
اس طرح محلات کے نام ہوتے تھے ، نواب خاص محل صاحبہ ، نواب معشوق محل صاحبہ ، نواب دلدار محل صاحبہ ، نواب عاشق سلطان محل صاحبہ، نواب ممتاز محل صاحبہ ، نواب اختر محل صاحبہ ، نواب قیصر محل صاحبہ ۔۔۔ اور یہ کوئی ستر کے قریب ممتوعات و محلات تھیں۔ انہی عیاشیوں کی بدولت واجد علی شاہ ہندوستان میں مسلمانوں کی بدبختی کاآخری مرقع تھا۔ اُس نے ناچ اور گانے میں وہ ایجادیں کی ہیں کہ اب تک بڑے بڑے اُستاد ان فن اس کا لوہا مانتے ہیں وہ کئی راگنیوں اور نرتوں کا موجد اور معلم تھا۔ کوئی رقاصہ کہیں چوکتی تو پلنگ پر لیٹے لیٹے بھاؤ بتا کر اصلاح کر دیتا۔ کسی گویے کی آواز میں کوئی عیب ہوتا تو فوراً ٹوک دیتا۔ خودتال اور سُرکی ایک ایک ادا کامزاج واں تھا۔ اس کا وجود عیش و عشرت کا پیکر تھا۔ کبھی کبھار اپنے اُوپر زچگی کی کیفیت طاری کر لیتا اور بچہ جنتا ، اس پر دربار میں مبارکبادیں چلتیں ، نیازیں بٹتیں ، مجرے ہوتے۔ جب انگریزوں نے قید کر کے کلکتہ پہنچا دیا۔ تو وہاں بھی عیش و عشرت ہی کو اوڑھنا بچھونا بنائے رکھا ، جن ممتوعات کا عشق سر پر سوار تھا انہیں قید خانہ سے عشقیہ خطوط لکھتا، اُن سے کچھ نہ کچھ مانگ بھیجتا، مثلاً دلدار محل سے مسی مانگی ، اختر محل سے زُلفوں کے بال ، انہیں سرہانے رکھ کر سوتا اور بار بار سونگھتا ، جعفری بیگم سے دولائی دوپٹہ منگوایا جس سے لپٹ کر بار بار روتا۔ غرضیکہ واجد علی شاہ نے ایک ایسے لکھنؤ کو جنم دیا جو عیش و نشاط کے سانچے میں ڈھل کر خود ایک کسبی ہوگیا تھا۔
لکھنؤ میں رنڈیوں کے تین طائفے تھے۔
کنچنیا، یہ نیچ ہندوذات کی پیشہ و عورتیں تھیں ، جنہوں نے پنجاب سے نقل مکانی کر کے فیض آباد میں ڈیرے ڈالے تھے ، انہیں کے دم قدم سے لکھنؤ کا چکلہ آباد تھا۔
چونہ والیاں ، یہ تعداد میں دوسرے درجہ پر تھیں۔ ان کا کام ناچنا اور گانا تھا ان میں حیدر بائی چونے والی مشہور طوائف گزرے ہے ، جس نے نور کا گلا پایا تھا۔
ناگرنیاں: یہ پچمیل مٹھائی تھیں جن میں ہر قوم کی فاحشہ عورتیں ضم ہوگئی تھیں ان کی برادری کا دائرہ بہت پھیلا ہوا تھا لیکن ڈیرہ دارنیاں فصیح محاورہ تھیں جنہیں ہر شخص استعمال کر سکتا تھا فی الجملہ ان کا وجود روزمرہ تھا۔
حیدربائی کی آواز میں جادو تھا ، گوہر بائی کا رقص اس بلا کا تھا کہ الہ آباد کی نمائش میں یورپین محو حیرت رہ گئے ، کچھ عرصۃ بعد زہرہ و مشتری کا طوطی بولنے لگا ، زہرہ تو خود شاعرہ تھی۔ قدرت نے آواز میں سحر بھردیا تھا یہ شعر اُسی کا ہے
رات کا خوب الٰہی توبہ
آپ سنیئے گا تو شرمائیے گا
مشہور فلم سٹار نرگس کی ماں جدن بائی اس محفل کی آخری شمع تھی۔ مولانا عبدالحلیم شرر نے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ اس کو مور پنکھی ناچ مین وہ کمال حاصل تھا کہ نرت نرت پر وقت ٹھہر کر اس کی اداؤں سے چشم سیر ہوتا تھا۔
اسی زمانے میں طوائفوں نے بعض پیشہ ورانہ اصول وضع کئے اور اپنی معاشرت میں بعض ایسے الفاظ شریک کئے جن سے ان کی معصیت ڈھک گئی ۔ مثلاً وہ کسی مرد سے مقررہ مشاہرہ زنا شوئی کے تعلقات قائم کرتی تو پیشہ کی اصطلاح میں اس کی ملازمت کہتے تھے ۔یہ رواج اب بھی ہے ، ایک طوائف جس مرد سے مشاہرہ پر تعلقات قائم کرتی ہے اُس کا بدن اسی کے تصرف میں رہتا ہے لیکن رقص و نغمہ کے لئے اس کا دروازہ ہر ایک کے لئے کھلاہوتا ہے۔
یہ تھا نستعلیق لکھنؤ ۔۔۔ مگر محمد شاہ رنگیلے کی دہلی کا اخلاقی انحطاط اس سے بھی افزوں تھا۔ نواب درگاہ قلی خاں نے اس عہد کا تذکرہ لکھا اور خواجہ حسن نظامی نے اُس کو اُردو میں منتقل کیا ہے۔ ایک اقتباس یہ تصرف ادنیٰ ملاحظہ کیجئے۔
’’جدھر نگاہ اُٹھا کر دیکھئے دہلی کے خوش باش لوگ زندگی کی بہار لوٹنے میں مشغول ہیں ہر کوچہ و بازار حسن و عشق کے معرکے ہیں ، ہر درخت کی چھانوں میں عاشق و معشوق رنگ رلیاں کرتے نظر آتے ہیں ہر میدان میں محبوں اور محبوبوں کی ٹولیاں سیریں کرتی اور جھومتی نظر آتی ہیں۔ ہر باغ میں الھڑ حسینوں اور خوش چہرہ لڑکوں اُن کے شید ائیوں اور دلفگاروں کے راز و نیاز کی محفلیں جمی ہوتی ہیں۔۔۔ یہ رات کے ابتدائی حصے کے منظر ہیں جب رات زیادہ آجاتی تو بس دہلی والوں میں بھی شباب کی اُمنگیں زور مارنے لگتی ہیں اور وہ محتسبوں یاراہ گیروں سے بے نیاز ہو کر بے اندیشہ اور بے خطر ہوس رانی میں لگ جاتے ہیں ، نو خط مرد محبوبی اور معشوقی کا کام کرتے ہیں لیکن بعض لوگ اس کو پسند نہیں کرتے وہ عورتوں اور نوجوان لڑکیوں کی تلاش میں رہتے ہیں اور یہ کوئی دشوار کام نہیں کیونکہ اس قسم کی آوارہ عورتیں بکثرت موجود ہوتی ہیں۔‘‘
میر کلو ایک آزاد منش نوجوان ہے اس کو امیرزادوں اور نوجوانوں کی طبیعت پر قابو ہے اور ہمیشہ دلجوئی و خاطر داری کے لئے ان کی خواہشوں کو پورا کرتا ہے ، اس کی خوبی یہ ہے کہ عیش و نشاط کے لوازمات میں کسی چیز کی کوتاہی نہیں کرتا، میرزا مشرف کے عُرس پر جب اُمراء اور ان کے صاحبزادے آتے ہیں تو ہر کوئی اپنے ہمراہ کم سن اور طرار معشوقہ یا نوخط امرد کو لاتا ہے اُن کا قیام میرزا کلو کے خیموں میں ہوتا ہے جو ہر ایک کے لئے الگ الگ فاصلہ پر باغ میں لگے ہوتے ہیں ، جس کا جوجی چاہتا ہے کرتا ہے کوئی محتسب نہیں ہوتا ، تمام سامان عیش و رندی پہلے سے تیار رہتا ہے۔ ہر ایک معشوق کے ساتھ شراب کے دور چلنے شروع ہوجاتے ہیں۔ پس اس منزل پر پہنچ کر نفسانی خواہشات آزادی کے ساتھ پوری کی جاتی ہیں۔ امیر الا مراء اعظم خاں کے متعلق لکھا ہے کہ وہ ہر خوبصورت عورت اور خوش چہرہ لڑکے کو حجلہ ہوس میں لانے کے لئے کوشاں رہتا تھا۔ میرزا منوامرد پرستی میں یگانہ روزگار تھا انہی امراء میں ایک خوش باش لطیف خان تھا اس کے ہاں ہر شب محفل جمتی ، مبغچے حاضر ہوتے ، حقے خوشبو میں بسے رہتے۔ ہر ایک کے سامنے گلاب پاش رکھے ہوتے اور تمام مکان رات بھر اندر سما بنا رہتا۔ طوائفیں آتیں مجرے ہوتے اور جب تک رات تابہ کمر نہ آپہنچتی اُس وقت تک بادو انگور و بادہ سخن کا دور چلتا۔ لوگ جرعہ ہائے شراب سے لے کر جرعہ ہائے رخسار تک سے لُطف اندوز ہوتے ۔ میرن دہلی کا ایک رئیس زادہ تھا جو وزیر الملک کے مزاج میں دخیل ہوگیا تھا اس کا کام وزیر الملک کے لیے خوش چہرہ لڑکوں کی فراہمی تھا اس کے دلال صبح و شام حسینوں کی توہ میں رہتے اور خلوت شبینہ کے لئے خوبصورت لڑکے جمع کرتے ، وزیر الملک نے اس شوق میں لاکھوں روپے صرف کئے جس سے اُ س کا محل خوبصورت لڑکوں کی جلوہ گاہ بنا ہوا تھا۔
محر شاہ کے ہزاریوں میں کسل سنگھ ایک سردار تھا اُس کے نام پر کسل پورہ آباد تھا جہاں کسبیاں پیشہ کماتی تھیں۔
ارباب نشاط میں نعمت خاں اور اُس کا بھائی موسیقی میں نازک سے نازک خیال ادا کرنے پر قادر تھے۔ غلام رسول اور جانی قوالی میں یکتائے روزگار تھے۔ باقر تنبورہ بجانے میں یگانہ تھا۔ خود بارشاہ اُس پر جی جان سے فدا تھا ۔ حسن خان رباب بجانے میں بے مثال تھا۔ غلام محمد سارنگی بجانے میں منفرد ، بڑے بڑے با کمال اُس کے سامنے زانوے تلمذ تہہ کرتے تھے۔ قاسم علی ، نعمت خاں کا شاگرد تھا۔ اُس کی آواز اور اس کے چہرے میں زبردست کھچاؤ تھا معین الدین اور برہنا الدین جادو اثر قول تھے گھانسی رام پکھاوج میں وحید العصر تھا۔ رحیم خاں کو خیال گانے میں ملکہ حاصل تھا۔ شجاعت خان اپنی آواز کے بل پر بادشاہ تک رسائی رکھتا تھا۔ حسن خان ڈھولک بجانے میں بے نظیر تھا اور اور چہ ماہ تک نت نئی گت کے ساتھ ڈھولک بجا سکتا تھا جب اُس کی انگلیاں ڈھولک پر تیزی اور خوبصورتی سے چمکتیں تو معلوم ہوتا اندھیری رات میں جواہرات یا ستارے جگمگارہے ہیں اور ارض و سما رقص میں ہیں۔ خوا اور انوٹھا مشہور نقال تھے۔ سبزہ اور زمرد دونوخیر لڑکے تھے۔ جب ناچتے تو ایسا محسوس ہوتا جیسے چمنستان متحرک ہیں۔
یہ تو مردوں کی خصوصیتیں تھیں۔ عورتوں کے احوال اس سے بھی سوا تھے۔
معشوقہ ابوالحسن ، محمد شاہ کی محبوب رقاصہ تھی۔ آواز میں تمکنت لہجہ میں لوچ اور ادا میں رنگینی جو دیکھتا اُسی کا ہو رہتا۔ نوربانئی ڈومنی تھی۔ لیکن فصیح گفتگو میں اس کا جواب نہ تھا اس کا مکان ایک مرصّع دربار تھا۔ ہمیشہ ہاتھی پر سوار ہو کر سیر کو نکلتی چوب دار اور ملازم محافظہ دستہ کی حیثیت میں ہمراہ ہوتے ،لیکن جب اُمراء بلا بھیجتے تو قیمتی ہدیے بھیجتے۔ ایک دو نہیں بیسیوں رئیس اُس کے ہاں لُٹ گئے، اچھے اچھوں کو حویلیاں کھد گئیں۔ اس کی معیّت میں بہت سی عورتیں ہوتی تھیں جنہیں بیگم اور خانم کہاجاتا تھا۔ ان سب کا فن روپیہ کھینچنا تھا اکثر قارونی جیبیں اُن کی بدولت خالی ہوچکی تھیں۔
جاری ہے
——
آپکو یہ ناول کیسا لگا؟
کمنٹس میں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔
’’شہزادے پانی میں پالتی مارے ہوئے بیٹھے ہیں۔ ایک زانو پر پیچوان لگا ہے دوسری پر رنڈی بیٹھی ہے ، دھنواں اُڑاتے اور ملہار سنتے چلے جاتے ہیں۔ ‘‘
یہ زمانہ سلطنت کی ویرانی کا تھا، صرف ظاہری رسموں اور معنوی رواجوں کا طنطنہ باقی تھا جس نسبت سے بازو کی قوت گھٹتی گئی اُسی نسبت سے زبان کی نزاکت بڑھتی گئی ، جن کا پیشہ ناچنا اور گانا تھا اُن کو طوائف کہا گیا ، جن کا کاروبار بدن کی فروخت ٹھیرا وہ کسبیاں کہلائیں یا کنچنیاں اور جو محض ’’بازاری مال‘‘ تھیں۔ یعنی روپے اور جسم میں تبادلہ کرنے والی وہ ٹکیائیاں ٹھیریں۔ اُن کے لئے بیسوا رنڈی ، پاتر اور دیشیا کے لفظ معنی بھی مستعمل ہیں۔ جن میں ایک باریک سامعنوی فرق ہے اور اب تو بعض کمین ذاتیں بھی ان میں محسوب ہوتی ہیں مثلاً مراثنیں، ڈوغیاں اور پیرنیاں وغیرہ۔۔۔ کنچن کوئی ذات نہیں صرف پیشے کی رعایت سے ایک ذات بن گئی ہے اور اب ہر اس جمعیت انسانی کو کنچن کہتے ہیں جن کا تعلق طوائفوں اور کسبیوں کے خاندان سے ہوتاہے۔
شجاع الدولہ اور واجد علی شاہ کے لکھنؤ نے طوائفیت کی مختلف شاخوں کو پروان چڑھایا۔ ایک ایسا معاشرہ پیدا ہوگیا کہ مسلمان بادشاہوں کی پوری تاریخ میں طوائف کے عروج کی اتنی بڑی مثال نہیں ملتی ۔
شجاع الدولہ نواب صدر جنگ کا بیٹا تھا، جب اس کی انگریزوں سے صلح ہوگئی تو اُس نے فیض آباد کا سفر اختیار کیا۔ احمد خاں بنگش نے اس کے قصدِ سفر سے پہلے تین نصیحتیں کیں، اولاً مغلوں پر اعتبار نہ کرنا ، ثانیاً فیض آبا دکو دارالحکومت بنانا ، ثالثاً خواجہ سراؤں سے کام لینا۔ شجاع الدولہ نے ان تینوں باتوں کو آویزہ گوش بنالیا، پہلا کام یہ کیا کہ فوج کی کمان خواجہ سراؤں کو سونپ دی۔ سب سے بڑے ڈویژن میں چودہ ہزار سپاہی تھے جن کی وردی کا رنگ سرخ تھا۔ خواجہ سرالسبنت علی خاں کو ان کا کمانڈر بنایا، اسی نام کے ایک دوسری خواجہ سرا کی ماتحتی میں ایک ہزار سیہ پوش گھڑ سوا ر تھا۔ خواجہ سراعنبر علی کی زیر ہدایت پاپخ سو گھڑ سواروں کا دستہ اور خواجہ سرا محبوب علی کی ماتحتی میں پانچو شہسواروں کی چار پلٹنیں ، ایک اور خوش چہرہ خواجہ سرا لطافت علی کے ماتحت فوج کے اتنے ہی دستے تھے۔ علاوہ ازیں شجاع الدولہ کے دربار میں بہت سے زنانہ اور مردانہ طائفے تھے۔ شرر مرحوم نے لکھا ہے کہ شجاع الدولہ کا دل ہمیشہ خوبصورت عورتوں سے پُرتھا ۔ یہاں تک کہ سلطنت کا چپہ چپہ الناس علی دین ملوکھم کی جوہ گاہ بنا ہوا تھا، کئی نامور ڈیرہ دارنیاں تھیں جن کے ہمراہ عالیشان خیمے رہتے تھے ، جب شجاع الدولہ سلطنت کے مختلف اضلاع کا دورہ کرتا تو بادشاہ کے ہمراہ خیمے بھی ہوتے ، جہاں جی چاہتا خیمے گاڑ دیے جاتے ۔محفل جمتی اور آناً فاناً رقص و نغمہ کا چمن آراستہ ہوجاتا۔
واجد علی شاہ کے عہد میں شجاع الدولہ کا لگایا ہوا پودا ایک تناور درخت بن گیا۔ حتیٰ کہ واجد علی شاہ اور لہوو لعب ہم معنی الفاظ ہوگئے۔ واجد علی شاہ بچپن ہی سے حسن و نغمہ کی گود میں پلا تھا۔ اور ابھی سن شعور کو بھی نہ پہنچا تھا کہ اس کی عمر کے بہت سے اُجلے ورق طوائفوں کی ہم آغوشی سے داغدار ہوچکے تھے، جب تخت پر بیٹھا تو عورتوں سے اس کی رغبت کا یہ عالم تھا کہ اس نے فوج کی کایا پلٹ دی، رسالوں کا نام بانگا ، ترچھا اور گھنگھور رکھا۔ پلٹنوں کے نام اختری اور نادر ، جودو مشہور طوائفوں کے نام پر تھے ، واجد علی شاہ متعہ کو مذہباً جائز سمجھتا تھا۔ ہر وقت عورت جو اس کی ہوس کا شکار رہتی اس کو متعہ کے خطاب سے نوازتا۔ ایک دفعہ بھنگن پرجی آگیا تو صرف اُسے فیضیاب کر ڈالا بلکہ نواب مصفا بیگم کے لقب سے ملقب کیا ، کسی بہشتن پر دل للچایا تو اُس کو نواب آب رساں بیگم بنا ڈالا ۔ واجد علی شاہ مسلمان فرمانرواؤں میں پہلا بادشاہ تھا جس نے خوب صورت عورتوں کی ایک چھوٹی سی فوج بنائی۔
آج فوجوں میں جو زنانہ دستے نظر آتے ہیں۔ وہ غالباً اُسی نظیر پر قائم ہیں ،خود بادشاہ کا وزیر علی نقی خاں ارباب نشاط میں سے تھا۔ اُس کی بیٹی نواب اختر محل شاہ کی ملکہ تھیں ، اکثر نابالغ اور کم سن لڑکیاں بادشاہ کی نظر کا شکار ہوجاتیں ۔ تو انہیں غیر ممتوعہ بنا کر رکھ لیا جاتا۔ اور جوان ہوتے ہی ممتوعہ بنا لیا جاتا پھر مختلف حالات میں اُن کے سپرد گانے اور ناچنے کا کام ہوتا۔ یہ اتنی زیادہ تھیں کہ ان کے طائفے بنا دیے گئے ، ہر طائفہ کا نام اُن کی خصوصیت پر رکھا گیا مثلاً:
رادھا منزل والیاں ، جھومر والیاں ، لٹکن والیاں، ساردھا منزل والیاں ، نتھ والیاں ، گھونگھٹ والیاں ، نقل والیاں اور اچھوتیاں۔ ان میں اکثر بادشاہ کے قریب سلطانی خانہ میں رہتیں۔ بعض کو کوٹھیوں میں محل سرائیں ملی ہوتی تھیں۔ جس کے ہاں بچہ پیدا ہوتا اُسے محل کا خطاب دیا جاتا۔ جو صاحب اولادنہ ہوتی اس کو بیگم کہتے۔ بیگموں کی تنخواہ روٹی کپڑے کے علاوہ چھ سے بیس روپے ماہانہ ہوتی البتہ محلات کے زمرے میں آتے ہی دو سو روپے ماہوار ہوجاتے اور رہنے کو محل اسرا اور ڈیوڑھی میں دربان وغیرہ دیے جاتے تھے۔ ہر ممتوعہ کا نام چن کر رکھا جاتا۔ پری جمال بیگم ، خور شمائل بیگم ، گُل رخ بیگم اور نازک اندام بیگم۔
اس طرح محلات کے نام ہوتے تھے ، نواب خاص محل صاحبہ ، نواب معشوق محل صاحبہ ، نواب دلدار محل صاحبہ ، نواب عاشق سلطان محل صاحبہ، نواب ممتاز محل صاحبہ ، نواب اختر محل صاحبہ ، نواب قیصر محل صاحبہ ۔۔۔ اور یہ کوئی ستر کے قریب ممتوعات و محلات تھیں۔ انہی عیاشیوں کی بدولت واجد علی شاہ ہندوستان میں مسلمانوں کی بدبختی کاآخری مرقع تھا۔ اُس نے ناچ اور گانے میں وہ ایجادیں کی ہیں کہ اب تک بڑے بڑے اُستاد ان فن اس کا لوہا مانتے ہیں وہ کئی راگنیوں اور نرتوں کا موجد اور معلم تھا۔ کوئی رقاصہ کہیں چوکتی تو پلنگ پر لیٹے لیٹے بھاؤ بتا کر اصلاح کر دیتا۔ کسی گویے کی آواز میں کوئی عیب ہوتا تو فوراً ٹوک دیتا۔ خودتال اور سُرکی ایک ایک ادا کامزاج واں تھا۔ اس کا وجود عیش و عشرت کا پیکر تھا۔ کبھی کبھار اپنے اُوپر زچگی کی کیفیت طاری کر لیتا اور بچہ جنتا ، اس پر دربار میں مبارکبادیں چلتیں ، نیازیں بٹتیں ، مجرے ہوتے۔ جب انگریزوں نے قید کر کے کلکتہ پہنچا دیا۔ تو وہاں بھی عیش و عشرت ہی کو اوڑھنا بچھونا بنائے رکھا ، جن ممتوعات کا عشق سر پر سوار تھا انہیں قید خانہ سے عشقیہ خطوط لکھتا، اُن سے کچھ نہ کچھ مانگ بھیجتا، مثلاً دلدار محل سے مسی مانگی ، اختر محل سے زُلفوں کے بال ، انہیں سرہانے رکھ کر سوتا اور بار بار سونگھتا ، جعفری بیگم سے دولائی دوپٹہ منگوایا جس سے لپٹ کر بار بار روتا۔ غرضیکہ واجد علی شاہ نے ایک ایسے لکھنؤ کو جنم دیا جو عیش و نشاط کے سانچے میں ڈھل کر خود ایک کسبی ہوگیا تھا۔
لکھنؤ میں رنڈیوں کے تین طائفے تھے۔
کنچنیا، یہ نیچ ہندوذات کی پیشہ و عورتیں تھیں ، جنہوں نے پنجاب سے نقل مکانی کر کے فیض آباد میں ڈیرے ڈالے تھے ، انہیں کے دم قدم سے لکھنؤ کا چکلہ آباد تھا۔
چونہ والیاں ، یہ تعداد میں دوسرے درجہ پر تھیں۔ ان کا کام ناچنا اور گانا تھا ان میں حیدر بائی چونے والی مشہور طوائف گزرے ہے ، جس نے نور کا گلا پایا تھا۔
ناگرنیاں: یہ پچمیل مٹھائی تھیں جن میں ہر قوم کی فاحشہ عورتیں ضم ہوگئی تھیں ان کی برادری کا دائرہ بہت پھیلا ہوا تھا لیکن ڈیرہ دارنیاں فصیح محاورہ تھیں جنہیں ہر شخص استعمال کر سکتا تھا فی الجملہ ان کا وجود روزمرہ تھا۔
حیدربائی کی آواز میں جادو تھا ، گوہر بائی کا رقص اس بلا کا تھا کہ الہ آباد کی نمائش میں یورپین محو حیرت رہ گئے ، کچھ عرصۃ بعد زہرہ و مشتری کا طوطی بولنے لگا ، زہرہ تو خود شاعرہ تھی۔ قدرت نے آواز میں سحر بھردیا تھا یہ شعر اُسی کا ہے
رات کا خوب الٰہی توبہ
آپ سنیئے گا تو شرمائیے گا
مشہور فلم سٹار نرگس کی ماں جدن بائی اس محفل کی آخری شمع تھی۔ مولانا عبدالحلیم شرر نے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ اس کو مور پنکھی ناچ مین وہ کمال حاصل تھا کہ نرت نرت پر وقت ٹھہر کر اس کی اداؤں سے چشم سیر ہوتا تھا۔
اسی زمانے میں طوائفوں نے بعض پیشہ ورانہ اصول وضع کئے اور اپنی معاشرت میں بعض ایسے الفاظ شریک کئے جن سے ان کی معصیت ڈھک گئی ۔ مثلاً وہ کسی مرد سے مقررہ مشاہرہ زنا شوئی کے تعلقات قائم کرتی تو پیشہ کی اصطلاح میں اس کی ملازمت کہتے تھے ۔یہ رواج اب بھی ہے ، ایک طوائف جس مرد سے مشاہرہ پر تعلقات قائم کرتی ہے اُس کا بدن اسی کے تصرف میں رہتا ہے لیکن رقص و نغمہ کے لئے اس کا دروازہ ہر ایک کے لئے کھلاہوتا ہے۔
یہ تھا نستعلیق لکھنؤ ۔۔۔ مگر محمد شاہ رنگیلے کی دہلی کا اخلاقی انحطاط اس سے بھی افزوں تھا۔ نواب درگاہ قلی خاں نے اس عہد کا تذکرہ لکھا اور خواجہ حسن نظامی نے اُس کو اُردو میں منتقل کیا ہے۔ ایک اقتباس یہ تصرف ادنیٰ ملاحظہ کیجئے۔
’’جدھر نگاہ اُٹھا کر دیکھئے دہلی کے خوش باش لوگ زندگی کی بہار لوٹنے میں مشغول ہیں ہر کوچہ و بازار حسن و عشق کے معرکے ہیں ، ہر درخت کی چھانوں میں عاشق و معشوق رنگ رلیاں کرتے نظر آتے ہیں ہر میدان میں محبوں اور محبوبوں کی ٹولیاں سیریں کرتی اور جھومتی نظر آتی ہیں۔ ہر باغ میں الھڑ حسینوں اور خوش چہرہ لڑکوں اُن کے شید ائیوں اور دلفگاروں کے راز و نیاز کی محفلیں جمی ہوتی ہیں۔۔۔ یہ رات کے ابتدائی حصے کے منظر ہیں جب رات زیادہ آجاتی تو بس دہلی والوں میں بھی شباب کی اُمنگیں زور مارنے لگتی ہیں اور وہ محتسبوں یاراہ گیروں سے بے نیاز ہو کر بے اندیشہ اور بے خطر ہوس رانی میں لگ جاتے ہیں ، نو خط مرد محبوبی اور معشوقی کا کام کرتے ہیں لیکن بعض لوگ اس کو پسند نہیں کرتے وہ عورتوں اور نوجوان لڑکیوں کی تلاش میں رہتے ہیں اور یہ کوئی دشوار کام نہیں کیونکہ اس قسم کی آوارہ عورتیں بکثرت موجود ہوتی ہیں۔‘‘
میر کلو ایک آزاد منش نوجوان ہے اس کو امیرزادوں اور نوجوانوں کی طبیعت پر قابو ہے اور ہمیشہ دلجوئی و خاطر داری کے لئے ان کی خواہشوں کو پورا کرتا ہے ، اس کی خوبی یہ ہے کہ عیش و نشاط کے لوازمات میں کسی چیز کی کوتاہی نہیں کرتا، میرزا مشرف کے عُرس پر جب اُمراء اور ان کے صاحبزادے آتے ہیں تو ہر کوئی اپنے ہمراہ کم سن اور طرار معشوقہ یا نوخط امرد کو لاتا ہے اُن کا قیام میرزا کلو کے خیموں میں ہوتا ہے جو ہر ایک کے لئے الگ الگ فاصلہ پر باغ میں لگے ہوتے ہیں ، جس کا جوجی چاہتا ہے کرتا ہے کوئی محتسب نہیں ہوتا ، تمام سامان عیش و رندی پہلے سے تیار رہتا ہے۔ ہر ایک معشوق کے ساتھ شراب کے دور چلنے شروع ہوجاتے ہیں۔ پس اس منزل پر پہنچ کر نفسانی خواہشات آزادی کے ساتھ پوری کی جاتی ہیں۔ امیر الا مراء اعظم خاں کے متعلق لکھا ہے کہ وہ ہر خوبصورت عورت اور خوش چہرہ لڑکے کو حجلہ ہوس میں لانے کے لئے کوشاں رہتا تھا۔ میرزا منوامرد پرستی میں یگانہ روزگار تھا انہی امراء میں ایک خوش باش لطیف خان تھا اس کے ہاں ہر شب محفل جمتی ، مبغچے حاضر ہوتے ، حقے خوشبو میں بسے رہتے۔ ہر ایک کے سامنے گلاب پاش رکھے ہوتے اور تمام مکان رات بھر اندر سما بنا رہتا۔ طوائفیں آتیں مجرے ہوتے اور جب تک رات تابہ کمر نہ آپہنچتی اُس وقت تک بادو انگور و بادہ سخن کا دور چلتا۔ لوگ جرعہ ہائے شراب سے لے کر جرعہ ہائے رخسار تک سے لُطف اندوز ہوتے ۔ میرن دہلی کا ایک رئیس زادہ تھا جو وزیر الملک کے مزاج میں دخیل ہوگیا تھا اس کا کام وزیر الملک کے لیے خوش چہرہ لڑکوں کی فراہمی تھا اس کے دلال صبح و شام حسینوں کی توہ میں رہتے اور خلوت شبینہ کے لئے خوبصورت لڑکے جمع کرتے ، وزیر الملک نے اس شوق میں لاکھوں روپے صرف کئے جس سے اُ س کا محل خوبصورت لڑکوں کی جلوہ گاہ بنا ہوا تھا۔
محر شاہ کے ہزاریوں میں کسل سنگھ ایک سردار تھا اُس کے نام پر کسل پورہ آباد تھا جہاں کسبیاں پیشہ کماتی تھیں۔
ارباب نشاط میں نعمت خاں اور اُس کا بھائی موسیقی میں نازک سے نازک خیال ادا کرنے پر قادر تھے۔ غلام رسول اور جانی قوالی میں یکتائے روزگار تھے۔ باقر تنبورہ بجانے میں یگانہ تھا۔ خود بارشاہ اُس پر جی جان سے فدا تھا ۔ حسن خان رباب بجانے میں بے مثال تھا۔ غلام محمد سارنگی بجانے میں منفرد ، بڑے بڑے با کمال اُس کے سامنے زانوے تلمذ تہہ کرتے تھے۔ قاسم علی ، نعمت خاں کا شاگرد تھا۔ اُس کی آواز اور اس کے چہرے میں زبردست کھچاؤ تھا معین الدین اور برہنا الدین جادو اثر قول تھے گھانسی رام پکھاوج میں وحید العصر تھا۔ رحیم خاں کو خیال گانے میں ملکہ حاصل تھا۔ شجاعت خان اپنی آواز کے بل پر بادشاہ تک رسائی رکھتا تھا۔ حسن خان ڈھولک بجانے میں بے نظیر تھا اور اور چہ ماہ تک نت نئی گت کے ساتھ ڈھولک بجا سکتا تھا جب اُس کی انگلیاں ڈھولک پر تیزی اور خوبصورتی سے چمکتیں تو معلوم ہوتا اندھیری رات میں جواہرات یا ستارے جگمگارہے ہیں اور ارض و سما رقص میں ہیں۔ خوا اور انوٹھا مشہور نقال تھے۔ سبزہ اور زمرد دونوخیر لڑکے تھے۔ جب ناچتے تو ایسا محسوس ہوتا جیسے چمنستان متحرک ہیں۔
یہ تو مردوں کی خصوصیتیں تھیں۔ عورتوں کے احوال اس سے بھی سوا تھے۔
معشوقہ ابوالحسن ، محمد شاہ کی محبوب رقاصہ تھی۔ آواز میں تمکنت لہجہ میں لوچ اور ادا میں رنگینی جو دیکھتا اُسی کا ہو رہتا۔ نوربانئی ڈومنی تھی۔ لیکن فصیح گفتگو میں اس کا جواب نہ تھا اس کا مکان ایک مرصّع دربار تھا۔ ہمیشہ ہاتھی پر سوار ہو کر سیر کو نکلتی چوب دار اور ملازم محافظہ دستہ کی حیثیت میں ہمراہ ہوتے ،لیکن جب اُمراء بلا بھیجتے تو قیمتی ہدیے بھیجتے۔ ایک دو نہیں بیسیوں رئیس اُس کے ہاں لُٹ گئے، اچھے اچھوں کو حویلیاں کھد گئیں۔ اس کی معیّت میں بہت سی عورتیں ہوتی تھیں جنہیں بیگم اور خانم کہاجاتا تھا۔ ان سب کا فن روپیہ کھینچنا تھا اکثر قارونی جیبیں اُن کی بدولت خالی ہوچکی تھیں۔
جاری ہے
——
آپکو یہ ناول کیسا لگا؟
کمنٹس میں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔