اُس بازار میں ۔ طوائف کی ہوش ربا داستان الم از شو رش کاشمیری ۔ قسط نمبر 6
امیر بیگم ایک عجیب الخلقت طوائف تھی، اس کا کمال یہ تھا کہ مجلسوں میں برہنہ آتی ہر حصہ عریاں ہوتا ۔ لیکن اس انداز میں پاجامے کی نقاشی کرواتی جیسے کمخواب کا بیلدار پاجامہ پہن رکھا ہو۔ اس عُریانی کو ہر کوئی پہچان نہ سکتا تھا تمام لوگ مبس ہی سمجھتے تھے۔ اعتماد الدولہ کی داشتہ کا نام رام رجنی تھا ۔ زینب اور گلاب بڑی پایہ کی ڈیڑہ دارنیاں تھیں ، ان کے دروازے پر دستک دینا ہر کسی کے بس سے باہر تھا۔ رحمان بائی محض رقاصہ تھی، لیکن پیکر بدن ایسا تھا جیسے شام کشمیر مجسم ہوگئی ہو۔ پنا بائی کی آواز میں وہ سحر تھا کہ زندے سے تڑپ اُٹھتے اور مردے جی جاتے تھے، اُس نے بہت سی راگنیاں بھی تخلیق کی تھیں۔ پانی پرلکیر کھینچنا اور ہوا میں گرہ لگانا اُس کے بائیں ہاتھ کا کرتب تھا، کمال بائی درباری مغنیہ تھی۔ کنور بائی کی بیٹی کا نام اومابائی تھا۔ اس کا دہن گلدستہ تھا جہاں اس کی ماں کا حُسن ختم ہوتا ، وہاں سے اُس کا حُسن شروع ہوتا تھا۔ پنا اور تنو محمد شاہ کی منہ چڑھی طوائفیں تھیں۔ جب محمد شاہ نے نادر شاہ کی لوٹ سے دل برداشتہ ہو کر ارباب نشاط کو چھٹی دے دی تو یہ دونوں بالا خانوں پر آبیٹھیں جہاں ہر شب مغل شہزادے اپنی صبح انجام کو قریب لاتے تھے۔
ادھر 1857 ء میں دہلی پر جو قیامت ٹوٹی اس سے پرانی ثقافت کے درو دیوار تک ہل گئے ۔ تمام ملک بارہ باٹ ہوگیا ۔ جنہوں نے کبھی کسی کا ہاتھ نہ جھٹکا تھا اُن کے دامن کشکول ہوگئے اور اب جامع مسجد کی سیڑھیوں پر پیٹ کی دُہائی دے رہے تھے ، ادھر خاندانی شرافت فقیر کی گدڑی ہوگئی۔ ادھر ہر کوئی بے توا کا سونٹا بنا پھرتا تھا ۔جن چہروں پر دہلی لکھنؤ کی شرافت کا انحصار تھا وہ تتر بتر ہوگئے۔ ہر شے پر جھوٹا جھول چڑھنے لگا ۔ شرفا کی لاج لچوں کا قہقہہ بن گئی اوردیکھتی آنکھوں ایسا انقلاب برپا ہوگیا کہ تیمور و بابر کی بیٹیاں تن ڈھانپنے کے لئے چیتھڑے ڈھونڈتی پھرتی تھیں۔
تاریخ فحاشی شاہد ہے کہ کسبیوں کا وجود جنگ یا انقلاب کی کوکھ سے پید اہوتا پھر پنپتا اور بڑھتا ہے۔ یونان اور روما کی تاریخ الفحشاء میں بھی اس کا اعتراف موجود ہے اور خود برصغیر ہندوستان کی تقسیم اس کی تازہ شہادت ہے۔ پچھلی دو بڑی جنگوں میں جو کچھ ہوتا رہا۔ وہ کس سے پوشیدہ ہے۔ اس مادی تباہی سے قطع نظر جو یورپ میں اپنے خطرناک نتائج چھوڑ گئی۔ سب سے بڑا سانحہ وہ اخلاقی تباہی ہے جس سے عورت ایک جنس بن چکی ہے۔
پچھلی جنگ میں آسام کی سرحد پر ایک غیور قوم موگ نے قحط کے آگے ہتھیار ڈال دیے۔ اور جب بھُوک کا تقاضا شدید ہوگیا تو موگ عورتوں نے اتحادی سپاہیوں کے ہاتھوں اپنی ہر عصمت بیچ ڈالی ۔ جو بہرحال روٹی کا بدل تھا۔۔ روٹی ۔۔اور ۔۔ عصمت۔
1857ء کا سانحہ اپنے ساتھ ہی نتائج لایا تھا، جب تاج و تخت ہی چھن گئے تو اُن کی وابستگیاں بھی جاتی رہیں۔ معاشرہ کا معاشرہ تہس نہس ہوگیا۔ وہ رنڈیاں جن سے شرفا کے بچے آداب مجلس سیکھتے تھے شمع راہگذار ہوگئیں، جن کی زبان میں کوئی ہچکی نہ تھی۔ اس طرح اُٹھتی گئیں کہ معیاری طوائف کا تصور بتاشہ کی طرح بیٹھ گیا۔ اس کے برعکس بازاریوں میں حیرتناک اضافہ ہونے لگا اور وہ خرابیاں جو اس پیشہ کے آداب سے ناواقف تھیں جہاں تک اُتار و اتر گئیں کہ وہ جسم کو گوشت کے بھاؤ بیچنے لگیں۔ وضعداری کے تمام سانچے ٹوٹ گئے۔
مولانا شبلی کے ایک طنزیہ سوال پر سر سید نے کہا تھا۔ اُس زمانے کے لوگ واقعی اپنے دوست کی داشتہ کو بھاوج کی نظر سے دیکھتے تھے ۔ خود طوائف کا یہ حال ہوتا تھا کہ جس سے ایک دفعہ تعلق ہوجاتا اُس سے عمر بھر ناطہ نہ ٹوٹتا۔
تھوڑے ہی دنوں میں غدر کا ہنگامہ فرو ہوگیا اور استعمار انگریزی کی مصلحتوں نے ریاستوں کے وجود کو ربرقرار رکھا تو ریاستیں طوائفیت کی پشتیبان ہوگئیں چنانچہ غدر کے بعد طوائفوں کے ادارہ کو فروغ دینے میں سب سے نمایاں ہاتھ نوابوں ، مہاراجوں ، خانوں ، تعلقداروں اور زمینداروں کا ہے۔ اس براعظم میں طوائف کا موجود ہ نظام براہ راست جاگیرداروں کی پیداوار ہے جو تکلف ، تصنع ، استحصال اور جاگیرداری نظام کی خلقی خصوصیت ہے، وہی خصوصیت ایک طوائف کی سیرت کا پر تو ہے۔ ہندوستان میں تقسیم سے پہلے ۔۔۔ 562ریاستیں تھیں۔ سب سے بڑی حیدر آباد جہاں پونے دو کروڑ لوگ لیتے تھے سب سے چھوٹی بلباری جس کی آبادی صرف 72نفوس پر مشتمل تھی۔ ان سب ریاستوں کے رگ و ریشہ میں (اِلا ماشاء اللہ ) طوائف کا خون دوڑتا رہا۔ ان میں سے بیشتر کے فرماں روا طوائفوں ہی کی اولاد ہیں اور ان کا خمیر و ضمیر طوائف ہی کی مٹی میں گندھا ہوا ہے ، یہ بات پایہ تحقیق کو پہنچ چکی ہے کہ طوائف کا ادارہ جاگیرداروں ہی کی وجہ سے پروان چڑھا ہے۔ بڑی بڑی ریاستوں میں کسبیاں پلتی اور چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بکتی ہیں۔ ان ریاستوں کے گھناؤ نے نظام کے باعث بردہ فروشی کو خاصا فروغ ہوا۔ مرحوم پنجاب میں چمبہ کا علاقہ خوبصورت لڑکیوں کی فروخت کے لئے بے حد مشہور تھا ۔ مہاراجہ پٹیالہ نے اپنے والد کی تین سو سے زائد بیویوں کو 35روپے فی نفر کے حساب سے فروخت کیاتھا، ہندوستان میں بہت سے راجے اوز نواب ایسے تھے جو بیک وقت بیٹی اور ماں سے مستفید ہوتے رہے۔ خود مجھے ایک طوائف نے عندالملاقات بتایا کہ ریاستوں میں گورا رنگ اور سرمئی آنکھیں ہمیشہ راجواڑوں کی ملکیت سمجھی گئیں ۔ مشہور کہاوت ہے کہ:
’’ریاستوں میں خوبصورت لڑکیاں ترقی حاصل کرنے کے لئے جنی جاتی ہیں۔ ‘‘
ایک انگریز افسر نے جو ریاستی محکمہ میں کام کر چکا تھا اپنے ایک مراسلہ میں برطانوی حکومت کو لکھا تھا کہ ریاستی افسروں کا صرف ایک ہی کام ہے کہ وہ حکمرانوں کے لئے عورتیں اغوا کرتے ہیں۔
ایک مہارانی نے ’’بمبئی کرانیکل‘‘ میں رنواس کا کچا چٹھا لکھتے ہوئے اس بات پر زور دیا تھا کہ :
’’ ہم محض بستروں کے کھلونے ہیں ، ہماری زندگی یا موت کا انحصار مالکوں کی مرضی پر ہے۔ ہماری زندگی بھیانک خوابوں سے ابتر ہے ہمارے حرم مرصّع پنجرے میں جہاں ہمیں قید رکھا جاتا ہے۔‘‘
چنانچہ راجپوتانہ کے ایک مہاراجہ اپنے پیچھے چار ہزار عورتیں چھوڑ کر مرے تھے اور ان میں بے شمار نا بالغہ تھیں۔ اس شہوانی جذبے کی تسکین کے لئے ان حکمرانوں کے محلوں میں باقاعدہ عشرت کدے تعمیر ہوتے جن میں اس قسم کے آئینے آویزاں ہوتے تھے کہ ان سے اختلاط کے مختلف زاویوں کا لطف اُٹھایا جاتا تھا۔ مہاراجہ اندور کو محض اس جرم کی پاداش میں گدی چھوڑنی پڑی کہ اُس نے مہاراجہ رنجیت سنگھ کی داشتہ موراں کی پڑپوتی ممتاز سے تعلق قائم کیا، لیکن کچھ عرصۃ بعد ممتاز کا دل اُچاٹ ہوگیا اور وہ بھاگ گئی۔ مہاراجہ کے ملازموں نے پیچھا کیا لیکن ممتاز نے بمبئی کے ایک کروڑ پتی سیٹھ باؤلے سے نکاح پڑھا لیا۔ مہاراجہ کے ملازموں نے موقع پاکر سیٹھ کر قتل کر ڈالا اور کوشش کی کہ ممتاز کو اُٹھا لیں مگر سب کے سب موقع پر گرفتار ہوگئے ، مقدمہ چلا اور بالآخر مہاراج ادھیراج کا سنگھاسن ڈول گیا۔!
ان اللے تللوں کی بنیادہی پر مصنف نے کہا تھا:
’ر انسان مختلف طریقوں سے دن کا آغاز کرتا ہے ، انگریز انڈے اور سور کے گوشت سے ، جرمن سایج اور قیمہ سے ، امریکن انگور سے ، مگر ’’ہزہائی نس‘‘ دو شیزہ کو ترجیح دیتے ہیں۔
لاہور کا موجودہ چکلہ بوڑھے راوی کا ہم عمر ہے۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے زمانہ انحطاط سے اس کا آغاز ہوتا ہے ، اس سے پیشتر بازار وچوک چکلہ سے رسالہ بازار تک جس میں نئی اور پرانی انارکلی کا علاقہ شامل ہے۔ کسبیاں بیٹھا کرتی تھیں اردگرد مغلوں کی سرکاری عمارتیں یا اُن کے کھنڈر تھے ، مہاراجہ رنجیت سنگھ کے عہد میں شہر لاہور کا نصف چکلہ تھا۔ ممکن ہے رنڈیوں کی اس بہتات کا ایک سبب یہ بھی ہو کہ لاہور ہمیشہ فوجوں کی گزر گاہ رہا ، جب غیر ملکی حملہ آور خیر پار سے ہندوستان میں داخل ہوتے تو اُن کا پہلا پڑاؤ لاہور ہوتا اس کے علاوہ سندھ ، سرحد اور دہلی کے فوجیوں نے بھی لاہور کو جولا نگاہ بنائے رکھا۔ ظاہر ہے کہ جب کوئی شہر فوج کی زد میں ہو تو اُس کی دولت ہی نہیں عصمت بھی لٹتی ہے۔ فاتحین چکلے بناتے اور مفتوحین کسبیاں جنتے ہیں۔
برعظیم ہندوپاک کے چار بڑے چکلوں میں لاہور کا چکلہ چوتھے درجے پر تھا۔ بیس سال پہلے اقوام متحدہ کی ثقافتی کمیٹی نے مختلف ملکوں کی کسبیوں کے جواعداد و شمار فراہم کئے تھے اُس کے مطابق اوّل کلکتہ تھا دوم بنگلور سوم بمبئی اور چہارم لاہور۔
تب کلکتہ میں ایک لاکھ سے زائد رنڈیاں تھیں اور اُن میں لگ بھگ پچانوے فی صد ٹکیائیاں تھیں۔ جس ادارہ کا نام طوائف ہے وہ یا تو لکھنؤ میں رہا یا آگرہ میں یا دہلی میں یا پھر لاہور میں۔
لاہور کا بازار عام بازاروں کے طرز پر نہیں۔ کئی بازاروں اور کئی محلوں کے وصل سے ایک بڑے قصبے کے برابر ہے، تمام علاقہ کو اجتماعاً ہیرا منڈی کہتے ہیں۔ اس کی سطح لاہور کے ہر حصہ سے بلند ہے اگر راوی کا پانی مار کرتا ہوا اس سطح تک آجائے تو نہ صرف لاہور غرق ہوجاتا بلکہ ملتان تک کا سارا علاقہ ڈوب جاتا ہے۔
ہیرا منڈی ایک تکون کی طرح ہے ، عالمگیری مسجد اور اکبری قلعہ کے بائیں سمت بالا خانوں کی دور تک پھیلی ہوئی ایک قطار ہے جس میں ٹیڑھی ترچھی کئی قطاریں ضم ہوتی ہیں ، ٹکسالی دروازہ سے داخل ہوں تو سب سے پہلے نکڑ شاہی وقتوں کی ایک منزلہ مسجد ہے جس کے چہرے پر برص کے داغ ہیں ۔۔۔ سیاہ دیواروں پر سفید دھبے ۔۔۔ اس کی تعمیر مغلئی طرز پر ہے اس مسجد سے چند ہی قدم آگے رنڈیوں کے کوٹھے شروع ہوجاتے ہیں ۔
بازار شیخو پوریاں کے وسط سے محلہ سمیاں کو جو راستہ جاتا ہے اس کی دو یا چار دُکانیں چھوڑ کر ایک گلی مڑتی ہے جس کو ٹبی کہتے ہیں۔ یہ ایک بازار نما کوچہ ہے جس کا دوسرا سربازار چکماں کے آغاز پر ختم ہوتا ہے ۔ ایک پہلومیں بازار جج عبداللطیف ہے ، دوسرا موڑ ٹبی تھانے کے ساتھ سے ہو کر گذر تا ہے۔ ٹھیک وسط میں گیتی تھیٹر کا چوک ہے جہاں بازار شیخوپوریاں ، چیت رام روڈ ، شاہی محلہ ، ہیرا منڈی ، بارو دخانہ کا تھبی حصہ اور اڈہ شہباز خاں ایک دوسرے سے بغلگیر ہوتے ہیں۔
اس زہرہ گداز فضا کے صحیح تماشائی اورنگ زیب کی مسجد ۔۔۔ یا کعبہ کی بیٹی کے وہ بلند قامت مینار ہیں جو سالہا سال سے انسان کی بیٹی کا تماشا دیکھ رہے ہیں۔ ٹبی ایک دندانہ دار کوچہ ہے اس کے اُوپر نیچے دوکانیں اور مکان ہیں جہاں ہر رنگ اور ہر عمر کی عورتیں بھری پڑی ہیں۔
یہ بازار نہیں ، ایک سنگین بستر ہے ، جہاں عورت کی عفت تھک کر ہمیشہ کی نیند ہوگئی ہے ۔ اس بوچڑ خانہ میں عورت قتل ہوتی ہے۔ اس کا گوشت بکتا ہے عورت کو گوشت ۔۔۔ میمنے کا گوشت ۔۔۔ دو شیزہ کا گوشت ۔۔ بروہ کا گوشت ۔۔۔ باکرہ کا گوشت ۔۔۔ آہوکا گوشت ۔۔۔ نمیار کا گوشت ۔۔۔ گائے گوشت ۔۔۔ ہیر کا گوشت ، سوہنی کا گوشت ، صاحباں کا گوشت ، سدا سہاگنوں کا گوشت ۔ اُن سہاگنوں کا گوشت جو سہاگ رات ہی میں بیوہ ہو جاتی ہیں۔ کسی بھی گاہک کے لئے کوئی قید نہیں، ہر بوٹی کی قیمت مقرر ہے۔ آٹھ آنے سے تین روپے تک ۔۔۔ آپ نے دام پوچھا اور پھر جیسا گوشت چاہا حرید لیا تازہ ، باسی ، جوان ، بوڑھا ، سُرخ ، سفید ، گوشت ہی گوشت جسم ہی جسم ؟
آپ کی چاندی اور عورت کی چمڑی ، اس منڈی کا اصل الاصول ہے ۔ہمیشہ سے تازہ مال آتا ہے۔
اس پیچدار مارکیٹ میں کہیں اور کوئی سیدھا نہیں ۔تمام بازار میں جوڑ ہی جوڑ ہیں ، وسط میں ایک چھوٹا سا چوک ہے۔ غربی حصہ میں ایک کٹڑی ہے اور کٹڑی سے ایک طرف تکون موڑ ہے اس موڑ پر حضرت سید قاسم شاہ مشہدیؒ کا مزار ہے۔ اس مزار کے پہلو میں مسجد ہے ۔مسجد کے دروازے پر عموماً تالا پڑا رہتا ہے۔ متولی کا کہنا ہے کہ جو لوگ چوری چھپے آتے ہیں وہ حضرت سید قاسم شاہؒ کے مزار کی دیوار کا سہارا لے کر مسجد کے عقب سے نکل جاتے ہیں۔ لیکن بعض کھلنڈرے مسجد کی اہانت کو محسوس نہیں کرتے اور اسی کو چور دروازہ بنا لیتے ہیں۔
حضرت سید قاسم ؒ شاہ رنجیت سنگھ کے ابتدائی زمانہ میں مشہد سے لاہور تشریف لائے تھے اور اس جگہ قیام فرمایا جہاں دفن ہیں۔ مزار کے پڑوس میں ایک کھلے صحن کا مکان ہے جس کا چوبی دروازہ اندر سے بند رہتا ہے سید اولاد شاہ گیلانی ایم اے جو آپ کی پوتی کے بیٹے ہیں ۔اس مکان میں رہتے ہیں۔ شاہ صاحب مدرس رہ چکے ہیں۔ تقریباً بیس سال تک ڈسٹرکٹ بورڈ ملتان میں سیکرٹری رہے۔ کئی کتابوں کے مصنف اور مترجم ہیں۔ ان کا بیان ہے کہ ٹبی اسم تصغیر ہے۔ ابتداء میں اس جگہ ٹبہ (ٹیلا) ہوتا تھا ، حضرت قاسم شاہؒ نے اس کو اقامت و عبادت کے لئے چُن لیا ، مسجد کی نیور کھی ، حجرہ بنوایا اور یاد اللہ میں مشغول ہوگئے ، تھوڑے ہی دنوں میں ان کے فقرو استغنا کا چر چا ہوگیا۔
انہی دنوں چیچو کی ملیاں (شیخوپورہ) کے بعض خانہ بدوشوں کے نشیب میں قیام کیا، یہ لوگ اپنے آپ کو پنجاب کی مختلف ذاتوں سے منسوب کرتے تھے ، ان کا کام چٹائیاں بننا اور چقین بنانا تھا۔ لیکن پیٹ کی مار صورتوں کے ساتھ سیر تیں بھی بگاڑ دیتی ہے ۔ان کی عورتیں خوبصورت تھیں ، ان سے چوری چھپے پیشہ کرنا شروع کیا۔ حضرت قاسم شاہؒ کے فرزند حضرت میرن شاہ ؒ جو اس وقت دس گیارہ برس کی عمر میں تھے ، اُن کی جھونپڑیوں میں شب کو گھس جاتے ، دیے گل کرتے اور چلاتے : ۔
’’سور آگئے سور ، سور آگئے سور ‘‘
اس پر چند لوگ حضرت قاسم شاہ ؒ کی خدمت میں پہنچے اور مرشد زادے کی شکایت کی ، شاہ صاحب نے فرمایا:
’’میرن ! ان کے لئے دُعا کرو بددُعا نہ دو۔ سور بھی تو خدا کی مخلوق ہے ان خانہ بدوشوں ہی کی اولاد ہیرا منڈی کے پشتینی کنچنوں کی مورث ہے اور ان کی بڑی بڑی حویلیاں ہیں۔
جب حضرت میرن شاہ کا 1878ء میں وصال ہوگیا تو ٹبی کا نام کوچہ میرن شاہ رکھا گیا ۔ لیکن 1920 ء یا 1921 ء میں پولیس کے ایک ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ علی گوہر نے اپنے نام سے منسوب کر لیا ، وہ انتقال کر گیا تو کوچہ گاڈیاں کہلایا اب ٹبی یا چکلہ کہتے ہیں۔
جاری ہے
——
آپکو یہ ناول کیسا لگا؟
کمنٹس میں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔
ادھر 1857 ء میں دہلی پر جو قیامت ٹوٹی اس سے پرانی ثقافت کے درو دیوار تک ہل گئے ۔ تمام ملک بارہ باٹ ہوگیا ۔ جنہوں نے کبھی کسی کا ہاتھ نہ جھٹکا تھا اُن کے دامن کشکول ہوگئے اور اب جامع مسجد کی سیڑھیوں پر پیٹ کی دُہائی دے رہے تھے ، ادھر خاندانی شرافت فقیر کی گدڑی ہوگئی۔ ادھر ہر کوئی بے توا کا سونٹا بنا پھرتا تھا ۔جن چہروں پر دہلی لکھنؤ کی شرافت کا انحصار تھا وہ تتر بتر ہوگئے۔ ہر شے پر جھوٹا جھول چڑھنے لگا ۔ شرفا کی لاج لچوں کا قہقہہ بن گئی اوردیکھتی آنکھوں ایسا انقلاب برپا ہوگیا کہ تیمور و بابر کی بیٹیاں تن ڈھانپنے کے لئے چیتھڑے ڈھونڈتی پھرتی تھیں۔
تاریخ فحاشی شاہد ہے کہ کسبیوں کا وجود جنگ یا انقلاب کی کوکھ سے پید اہوتا پھر پنپتا اور بڑھتا ہے۔ یونان اور روما کی تاریخ الفحشاء میں بھی اس کا اعتراف موجود ہے اور خود برصغیر ہندوستان کی تقسیم اس کی تازہ شہادت ہے۔ پچھلی دو بڑی جنگوں میں جو کچھ ہوتا رہا۔ وہ کس سے پوشیدہ ہے۔ اس مادی تباہی سے قطع نظر جو یورپ میں اپنے خطرناک نتائج چھوڑ گئی۔ سب سے بڑا سانحہ وہ اخلاقی تباہی ہے جس سے عورت ایک جنس بن چکی ہے۔
پچھلی جنگ میں آسام کی سرحد پر ایک غیور قوم موگ نے قحط کے آگے ہتھیار ڈال دیے۔ اور جب بھُوک کا تقاضا شدید ہوگیا تو موگ عورتوں نے اتحادی سپاہیوں کے ہاتھوں اپنی ہر عصمت بیچ ڈالی ۔ جو بہرحال روٹی کا بدل تھا۔۔ روٹی ۔۔اور ۔۔ عصمت۔
1857ء کا سانحہ اپنے ساتھ ہی نتائج لایا تھا، جب تاج و تخت ہی چھن گئے تو اُن کی وابستگیاں بھی جاتی رہیں۔ معاشرہ کا معاشرہ تہس نہس ہوگیا۔ وہ رنڈیاں جن سے شرفا کے بچے آداب مجلس سیکھتے تھے شمع راہگذار ہوگئیں، جن کی زبان میں کوئی ہچکی نہ تھی۔ اس طرح اُٹھتی گئیں کہ معیاری طوائف کا تصور بتاشہ کی طرح بیٹھ گیا۔ اس کے برعکس بازاریوں میں حیرتناک اضافہ ہونے لگا اور وہ خرابیاں جو اس پیشہ کے آداب سے ناواقف تھیں جہاں تک اُتار و اتر گئیں کہ وہ جسم کو گوشت کے بھاؤ بیچنے لگیں۔ وضعداری کے تمام سانچے ٹوٹ گئے۔
مولانا شبلی کے ایک طنزیہ سوال پر سر سید نے کہا تھا۔ اُس زمانے کے لوگ واقعی اپنے دوست کی داشتہ کو بھاوج کی نظر سے دیکھتے تھے ۔ خود طوائف کا یہ حال ہوتا تھا کہ جس سے ایک دفعہ تعلق ہوجاتا اُس سے عمر بھر ناطہ نہ ٹوٹتا۔
تھوڑے ہی دنوں میں غدر کا ہنگامہ فرو ہوگیا اور استعمار انگریزی کی مصلحتوں نے ریاستوں کے وجود کو ربرقرار رکھا تو ریاستیں طوائفیت کی پشتیبان ہوگئیں چنانچہ غدر کے بعد طوائفوں کے ادارہ کو فروغ دینے میں سب سے نمایاں ہاتھ نوابوں ، مہاراجوں ، خانوں ، تعلقداروں اور زمینداروں کا ہے۔ اس براعظم میں طوائف کا موجود ہ نظام براہ راست جاگیرداروں کی پیداوار ہے جو تکلف ، تصنع ، استحصال اور جاگیرداری نظام کی خلقی خصوصیت ہے، وہی خصوصیت ایک طوائف کی سیرت کا پر تو ہے۔ ہندوستان میں تقسیم سے پہلے ۔۔۔ 562ریاستیں تھیں۔ سب سے بڑی حیدر آباد جہاں پونے دو کروڑ لوگ لیتے تھے سب سے چھوٹی بلباری جس کی آبادی صرف 72نفوس پر مشتمل تھی۔ ان سب ریاستوں کے رگ و ریشہ میں (اِلا ماشاء اللہ ) طوائف کا خون دوڑتا رہا۔ ان میں سے بیشتر کے فرماں روا طوائفوں ہی کی اولاد ہیں اور ان کا خمیر و ضمیر طوائف ہی کی مٹی میں گندھا ہوا ہے ، یہ بات پایہ تحقیق کو پہنچ چکی ہے کہ طوائف کا ادارہ جاگیرداروں ہی کی وجہ سے پروان چڑھا ہے۔ بڑی بڑی ریاستوں میں کسبیاں پلتی اور چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بکتی ہیں۔ ان ریاستوں کے گھناؤ نے نظام کے باعث بردہ فروشی کو خاصا فروغ ہوا۔ مرحوم پنجاب میں چمبہ کا علاقہ خوبصورت لڑکیوں کی فروخت کے لئے بے حد مشہور تھا ۔ مہاراجہ پٹیالہ نے اپنے والد کی تین سو سے زائد بیویوں کو 35روپے فی نفر کے حساب سے فروخت کیاتھا، ہندوستان میں بہت سے راجے اوز نواب ایسے تھے جو بیک وقت بیٹی اور ماں سے مستفید ہوتے رہے۔ خود مجھے ایک طوائف نے عندالملاقات بتایا کہ ریاستوں میں گورا رنگ اور سرمئی آنکھیں ہمیشہ راجواڑوں کی ملکیت سمجھی گئیں ۔ مشہور کہاوت ہے کہ:
’’ریاستوں میں خوبصورت لڑکیاں ترقی حاصل کرنے کے لئے جنی جاتی ہیں۔ ‘‘
ایک انگریز افسر نے جو ریاستی محکمہ میں کام کر چکا تھا اپنے ایک مراسلہ میں برطانوی حکومت کو لکھا تھا کہ ریاستی افسروں کا صرف ایک ہی کام ہے کہ وہ حکمرانوں کے لئے عورتیں اغوا کرتے ہیں۔
ایک مہارانی نے ’’بمبئی کرانیکل‘‘ میں رنواس کا کچا چٹھا لکھتے ہوئے اس بات پر زور دیا تھا کہ :
’’ ہم محض بستروں کے کھلونے ہیں ، ہماری زندگی یا موت کا انحصار مالکوں کی مرضی پر ہے۔ ہماری زندگی بھیانک خوابوں سے ابتر ہے ہمارے حرم مرصّع پنجرے میں جہاں ہمیں قید رکھا جاتا ہے۔‘‘
چنانچہ راجپوتانہ کے ایک مہاراجہ اپنے پیچھے چار ہزار عورتیں چھوڑ کر مرے تھے اور ان میں بے شمار نا بالغہ تھیں۔ اس شہوانی جذبے کی تسکین کے لئے ان حکمرانوں کے محلوں میں باقاعدہ عشرت کدے تعمیر ہوتے جن میں اس قسم کے آئینے آویزاں ہوتے تھے کہ ان سے اختلاط کے مختلف زاویوں کا لطف اُٹھایا جاتا تھا۔ مہاراجہ اندور کو محض اس جرم کی پاداش میں گدی چھوڑنی پڑی کہ اُس نے مہاراجہ رنجیت سنگھ کی داشتہ موراں کی پڑپوتی ممتاز سے تعلق قائم کیا، لیکن کچھ عرصۃ بعد ممتاز کا دل اُچاٹ ہوگیا اور وہ بھاگ گئی۔ مہاراجہ کے ملازموں نے پیچھا کیا لیکن ممتاز نے بمبئی کے ایک کروڑ پتی سیٹھ باؤلے سے نکاح پڑھا لیا۔ مہاراجہ کے ملازموں نے موقع پاکر سیٹھ کر قتل کر ڈالا اور کوشش کی کہ ممتاز کو اُٹھا لیں مگر سب کے سب موقع پر گرفتار ہوگئے ، مقدمہ چلا اور بالآخر مہاراج ادھیراج کا سنگھاسن ڈول گیا۔!
ان اللے تللوں کی بنیادہی پر مصنف نے کہا تھا:
’ر انسان مختلف طریقوں سے دن کا آغاز کرتا ہے ، انگریز انڈے اور سور کے گوشت سے ، جرمن سایج اور قیمہ سے ، امریکن انگور سے ، مگر ’’ہزہائی نس‘‘ دو شیزہ کو ترجیح دیتے ہیں۔
لاہور کا موجودہ چکلہ بوڑھے راوی کا ہم عمر ہے۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے زمانہ انحطاط سے اس کا آغاز ہوتا ہے ، اس سے پیشتر بازار وچوک چکلہ سے رسالہ بازار تک جس میں نئی اور پرانی انارکلی کا علاقہ شامل ہے۔ کسبیاں بیٹھا کرتی تھیں اردگرد مغلوں کی سرکاری عمارتیں یا اُن کے کھنڈر تھے ، مہاراجہ رنجیت سنگھ کے عہد میں شہر لاہور کا نصف چکلہ تھا۔ ممکن ہے رنڈیوں کی اس بہتات کا ایک سبب یہ بھی ہو کہ لاہور ہمیشہ فوجوں کی گزر گاہ رہا ، جب غیر ملکی حملہ آور خیر پار سے ہندوستان میں داخل ہوتے تو اُن کا پہلا پڑاؤ لاہور ہوتا اس کے علاوہ سندھ ، سرحد اور دہلی کے فوجیوں نے بھی لاہور کو جولا نگاہ بنائے رکھا۔ ظاہر ہے کہ جب کوئی شہر فوج کی زد میں ہو تو اُس کی دولت ہی نہیں عصمت بھی لٹتی ہے۔ فاتحین چکلے بناتے اور مفتوحین کسبیاں جنتے ہیں۔
برعظیم ہندوپاک کے چار بڑے چکلوں میں لاہور کا چکلہ چوتھے درجے پر تھا۔ بیس سال پہلے اقوام متحدہ کی ثقافتی کمیٹی نے مختلف ملکوں کی کسبیوں کے جواعداد و شمار فراہم کئے تھے اُس کے مطابق اوّل کلکتہ تھا دوم بنگلور سوم بمبئی اور چہارم لاہور۔
تب کلکتہ میں ایک لاکھ سے زائد رنڈیاں تھیں اور اُن میں لگ بھگ پچانوے فی صد ٹکیائیاں تھیں۔ جس ادارہ کا نام طوائف ہے وہ یا تو لکھنؤ میں رہا یا آگرہ میں یا دہلی میں یا پھر لاہور میں۔
لاہور کا بازار عام بازاروں کے طرز پر نہیں۔ کئی بازاروں اور کئی محلوں کے وصل سے ایک بڑے قصبے کے برابر ہے، تمام علاقہ کو اجتماعاً ہیرا منڈی کہتے ہیں۔ اس کی سطح لاہور کے ہر حصہ سے بلند ہے اگر راوی کا پانی مار کرتا ہوا اس سطح تک آجائے تو نہ صرف لاہور غرق ہوجاتا بلکہ ملتان تک کا سارا علاقہ ڈوب جاتا ہے۔
ہیرا منڈی ایک تکون کی طرح ہے ، عالمگیری مسجد اور اکبری قلعہ کے بائیں سمت بالا خانوں کی دور تک پھیلی ہوئی ایک قطار ہے جس میں ٹیڑھی ترچھی کئی قطاریں ضم ہوتی ہیں ، ٹکسالی دروازہ سے داخل ہوں تو سب سے پہلے نکڑ شاہی وقتوں کی ایک منزلہ مسجد ہے جس کے چہرے پر برص کے داغ ہیں ۔۔۔ سیاہ دیواروں پر سفید دھبے ۔۔۔ اس کی تعمیر مغلئی طرز پر ہے اس مسجد سے چند ہی قدم آگے رنڈیوں کے کوٹھے شروع ہوجاتے ہیں ۔
بازار شیخو پوریاں کے وسط سے محلہ سمیاں کو جو راستہ جاتا ہے اس کی دو یا چار دُکانیں چھوڑ کر ایک گلی مڑتی ہے جس کو ٹبی کہتے ہیں۔ یہ ایک بازار نما کوچہ ہے جس کا دوسرا سربازار چکماں کے آغاز پر ختم ہوتا ہے ۔ ایک پہلومیں بازار جج عبداللطیف ہے ، دوسرا موڑ ٹبی تھانے کے ساتھ سے ہو کر گذر تا ہے۔ ٹھیک وسط میں گیتی تھیٹر کا چوک ہے جہاں بازار شیخوپوریاں ، چیت رام روڈ ، شاہی محلہ ، ہیرا منڈی ، بارو دخانہ کا تھبی حصہ اور اڈہ شہباز خاں ایک دوسرے سے بغلگیر ہوتے ہیں۔
اس زہرہ گداز فضا کے صحیح تماشائی اورنگ زیب کی مسجد ۔۔۔ یا کعبہ کی بیٹی کے وہ بلند قامت مینار ہیں جو سالہا سال سے انسان کی بیٹی کا تماشا دیکھ رہے ہیں۔ ٹبی ایک دندانہ دار کوچہ ہے اس کے اُوپر نیچے دوکانیں اور مکان ہیں جہاں ہر رنگ اور ہر عمر کی عورتیں بھری پڑی ہیں۔
یہ بازار نہیں ، ایک سنگین بستر ہے ، جہاں عورت کی عفت تھک کر ہمیشہ کی نیند ہوگئی ہے ۔ اس بوچڑ خانہ میں عورت قتل ہوتی ہے۔ اس کا گوشت بکتا ہے عورت کو گوشت ۔۔۔ میمنے کا گوشت ۔۔۔ دو شیزہ کا گوشت ۔۔ بروہ کا گوشت ۔۔۔ باکرہ کا گوشت ۔۔۔ آہوکا گوشت ۔۔۔ نمیار کا گوشت ۔۔۔ گائے گوشت ۔۔۔ ہیر کا گوشت ، سوہنی کا گوشت ، صاحباں کا گوشت ، سدا سہاگنوں کا گوشت ۔ اُن سہاگنوں کا گوشت جو سہاگ رات ہی میں بیوہ ہو جاتی ہیں۔ کسی بھی گاہک کے لئے کوئی قید نہیں، ہر بوٹی کی قیمت مقرر ہے۔ آٹھ آنے سے تین روپے تک ۔۔۔ آپ نے دام پوچھا اور پھر جیسا گوشت چاہا حرید لیا تازہ ، باسی ، جوان ، بوڑھا ، سُرخ ، سفید ، گوشت ہی گوشت جسم ہی جسم ؟
آپ کی چاندی اور عورت کی چمڑی ، اس منڈی کا اصل الاصول ہے ۔ہمیشہ سے تازہ مال آتا ہے۔
اس پیچدار مارکیٹ میں کہیں اور کوئی سیدھا نہیں ۔تمام بازار میں جوڑ ہی جوڑ ہیں ، وسط میں ایک چھوٹا سا چوک ہے۔ غربی حصہ میں ایک کٹڑی ہے اور کٹڑی سے ایک طرف تکون موڑ ہے اس موڑ پر حضرت سید قاسم شاہ مشہدیؒ کا مزار ہے۔ اس مزار کے پہلو میں مسجد ہے ۔مسجد کے دروازے پر عموماً تالا پڑا رہتا ہے۔ متولی کا کہنا ہے کہ جو لوگ چوری چھپے آتے ہیں وہ حضرت سید قاسم شاہؒ کے مزار کی دیوار کا سہارا لے کر مسجد کے عقب سے نکل جاتے ہیں۔ لیکن بعض کھلنڈرے مسجد کی اہانت کو محسوس نہیں کرتے اور اسی کو چور دروازہ بنا لیتے ہیں۔
حضرت سید قاسم ؒ شاہ رنجیت سنگھ کے ابتدائی زمانہ میں مشہد سے لاہور تشریف لائے تھے اور اس جگہ قیام فرمایا جہاں دفن ہیں۔ مزار کے پڑوس میں ایک کھلے صحن کا مکان ہے جس کا چوبی دروازہ اندر سے بند رہتا ہے سید اولاد شاہ گیلانی ایم اے جو آپ کی پوتی کے بیٹے ہیں ۔اس مکان میں رہتے ہیں۔ شاہ صاحب مدرس رہ چکے ہیں۔ تقریباً بیس سال تک ڈسٹرکٹ بورڈ ملتان میں سیکرٹری رہے۔ کئی کتابوں کے مصنف اور مترجم ہیں۔ ان کا بیان ہے کہ ٹبی اسم تصغیر ہے۔ ابتداء میں اس جگہ ٹبہ (ٹیلا) ہوتا تھا ، حضرت قاسم شاہؒ نے اس کو اقامت و عبادت کے لئے چُن لیا ، مسجد کی نیور کھی ، حجرہ بنوایا اور یاد اللہ میں مشغول ہوگئے ، تھوڑے ہی دنوں میں ان کے فقرو استغنا کا چر چا ہوگیا۔
انہی دنوں چیچو کی ملیاں (شیخوپورہ) کے بعض خانہ بدوشوں کے نشیب میں قیام کیا، یہ لوگ اپنے آپ کو پنجاب کی مختلف ذاتوں سے منسوب کرتے تھے ، ان کا کام چٹائیاں بننا اور چقین بنانا تھا۔ لیکن پیٹ کی مار صورتوں کے ساتھ سیر تیں بھی بگاڑ دیتی ہے ۔ان کی عورتیں خوبصورت تھیں ، ان سے چوری چھپے پیشہ کرنا شروع کیا۔ حضرت قاسم شاہؒ کے فرزند حضرت میرن شاہ ؒ جو اس وقت دس گیارہ برس کی عمر میں تھے ، اُن کی جھونپڑیوں میں شب کو گھس جاتے ، دیے گل کرتے اور چلاتے : ۔
’’سور آگئے سور ، سور آگئے سور ‘‘
اس پر چند لوگ حضرت قاسم شاہ ؒ کی خدمت میں پہنچے اور مرشد زادے کی شکایت کی ، شاہ صاحب نے فرمایا:
’’میرن ! ان کے لئے دُعا کرو بددُعا نہ دو۔ سور بھی تو خدا کی مخلوق ہے ان خانہ بدوشوں ہی کی اولاد ہیرا منڈی کے پشتینی کنچنوں کی مورث ہے اور ان کی بڑی بڑی حویلیاں ہیں۔
جب حضرت میرن شاہ کا 1878ء میں وصال ہوگیا تو ٹبی کا نام کوچہ میرن شاہ رکھا گیا ۔ لیکن 1920 ء یا 1921 ء میں پولیس کے ایک ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ علی گوہر نے اپنے نام سے منسوب کر لیا ، وہ انتقال کر گیا تو کوچہ گاڈیاں کہلایا اب ٹبی یا چکلہ کہتے ہیں۔
جاری ہے
——
آپکو یہ ناول کیسا لگا؟
کمنٹس میں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔
Leave a Reply