اُس بازار میں ۔ طوائف کی ہوش ربا داستان الم از شو رش کاشمیری ۔ قسط نمبر 7
ہر سال عرس کے موقع پر پشتینی رنڈیاں حضرت قاسم شاہؒ کے مزار پر حاضر ہوتیں اور مجرا کرتی ہیں۔ انہی حضرت قاسم شاہ ؒ کے برادرزادے حضرت علامہ میر حسن سیالکوٹیؒ ۔ علامہ اقبال کے اُستاد تھے۔ علامہ حسن ؒ کے دو بیٹے تھے نقی شاہ اور تقی شاہ ۔ نقی شاہ سے علامہ اقبال کے دو ستانہ مراسم تھے۔ ’’امروز ‘‘ کے ’’اقبال‘‘ میں نقی شاہ کے نام علامہ اقبال کے جس خط کا عکس چھپاتھا اُس میں امیر کا ذکر تھا، امیر ایک نامور طوائف ہوتی ہے۔ ! ٹبی میں کوئی دو سو کے لگ بھگ دوکانیں ، مکانیں یاڈیرے ہیں جہاں کوئی چار ساڑھے چار سو کے قریب عورتیں بیٹھتی تھیں ان کا کام صرف جسم فروشی کا تھا کیونکہ عصمت نام کی کوئی چیز بھی وہاں نہ تھی۔ ان کی دوکانیں صبح بارہ بجے کھلتیں اور رات بارہ بجے بند ہوجاتیں۔ چونکہ یہ عورتیں بیگاری مال تھیں اس لئے ان کے ٹھیکیدار ان ٹھیکیداروں کے گماشتے سر پر کھڑے رہتے۔ نرخ اور ہوس با قی سب موقوف۔ عورتیں کیا ؟ تاش کے پتے ، چوسر کی نردیں ، آم کی گٹھلیاں ، کیلے کا چھلکا ، خربوزے کے پھانک ، گنے کی پوریں ، سگریٹ کا دھواں ، عورت نہیں شارع عام ان کا وجود ایک خوفناک قہقہہ تھا ، ایک عریاں گالی ، ایک سنگین احتجاج ایک اوپن ایر تھیٹر ، ۔۔علماء سے معذرت کے ساتھ ایک عوامی شاہکار ۔
عورتیں نہیں ۔۔۔ قبریں عورتیں نہیں۔۔۔ چتائیں
عورتیں نہیں ۔۔۔۔ ہچکیاں عورتیں نہیں ۔۔۔ آنسو،
فطرت کے آنسو ، انسان کے آنسو ، عورت کے آنسو ، خون کے آنسو ، آنسو ہی آنسو ۔۔
آدمی محسوس کرتا ہے خدا خاموش ہے۔ ٹبی سے باہر بازار شیخوپوریاں ہے ۔ہیرا منڈٰ کے چوک تک رنڈیوں کے مکان اور دوکانیں ہیں۔ اس علاقہ کا سب سے بڑا چودھری سیالکوٹ کا ہے۔ کوئی درجن ڈیڑ ھ درجن لڑکیاں اس کے تصرف میں ہیں ، اس کی روزانہ آمدنی چار پانچ سو روپے ہوگی ۔اس کے پاس رائفل ہے ، گولیاں ہیں کار ہے ، سواریاں ہیں ، تانگہ ہے گھوڑیاں ہیں ، دولت ہے ، اثر ہے ، رسُوخ ہے ، غرض سبھی کچھ ہے اس لئے کہ لڑکیاں ہیں۔
شاہی محلہ کی مختلف ٹکڑیوں میں یہ خانے ہی یہ خانے ہیں۔ ایک طرف ڈینٹل ہسپتال کے نکڑ پر ، دوسری طرف شاہی مسجد کو نکلتے ہوئے چوک میں بہت سے نوجوان کھڑے رہتے ہیں۔ ان کا کام دلالی ہے ، کھُسر پھُسر ہوتی ہے ، سودا چکتا اور جسم لے کر نکل جاتی ہے۔
ہیرا منڈی کے چوک سے کوچہ شہباز خاں کے آخری سرے تک پشتینی کنچنیوں کے مکانات ہیں۔ کچھ خاندانی رنڈیاں مدرسہ نعمانیہ کے آس پاس رہتی ہیں ، اکثر مرکھپ چکی ہیں۔ بعض کی اولاد بڑے بڑوں کے گھر میں اُٹھ گئی ہے اور بعض ابھی تک پُرانے ڈگر پر چل رہی ہیں۔
ہیرا منڈی او ٹبی بازار میں بڑا فرق ہے، ٹبی محض قصاب خانہ ہے، ہیرا منڈی تصویر خانہ ایک آرٹ گیلری جہاں راتیں جاگتی اور دن سوتے ہیں۔ اس علاقہ کے بالا خانوں میں دن ڈھلے قحبہ انگڑائیاں لے کر اُٹھ بیٹھتی ہیں ، رات کی پہلی کروٹ کے ساتھ ہی بازار جگمگانے لگتاہے، کوئی نو بجے شب دروازے کھل جاتی ہیں ، ہر بیٹھک کی تیاری مکمل ہو چکی ہے ، ہر کوئی آجا سکتا ہے لیکن ان بالا خانوں میں جانے کے لئے روپیہ اور ہمت کی ضرورت ہے۔ کئی حویلیاں نسلی کنچنوں کی ہیں ، یہ لوگ مالدار ہیں ، ہر ایراغیران کے ہاں نہیں آجا سکتا، ان کے ٹھاٹھ شاہانہ ہیں ، اُن کے جسم شاہی کھلونا ہیں، اُن کی محل سرائیں جدید و قدیم کے امتزاج کا نمونہ ہیں ۔ڈرائنگ روم ہیں ، خاصہ خانے اور خلوت خانے ہیں، قالین ہیں۔ ڈوریوں سے کسے ہوئے پلنگ ہیں ، فرش پر کھچی ہوئی ستھری چاندنی ہے ، چاندی کے نقشی پاندان ہیں ، پھولدار اُگالدان ہیں ، مغلئی حقے ہیں ، دیواروں پر جلی آئینے ہیں اور چھت گیریاں ہیں ، وسط میں جھاڑہیں۔ !
ایک طرف میراثی ساز لئے بیٹھے رہتے ہیں اور جب تک گاہک نہ آئیں پھبتیاں کستے ، لطیفے جھاڑتے اور حُقے پیتے ہیں ، ان کی شکلیں عجیب سی ہوتی ہیں ہر کوئی گھن لگا ایندھن ہے اکثر جواری ڈھنڈاری ہیں ، جو کچھ رات میں کماتے دن کو ہار دیتے ہیں ، خرانٹ صورت ہیں ، چرکٹے ہیں ، نٹ کھٹ ہیں ، چیپرغٹو ہیں ، اول جلول ہیں لیکن ہیں آٹھویں گانٹھ کمید ، انہیں رنڈیوں کے لاحقے اور سابقے کا نام دینا زیادہ بہتر ہے ، عام گنوارنیں انہیں اُستاد جی کہتی ہیں ۔فطرت نے رنڈی کے چہرے سے حیا اور میراثی کے چہرے سے رونق دونوں چھین رکھی ہیں۔
جب شوقین مزاج آتے ہیں تو یہ ایک نظر میں اُن کا جائزہ لیتے ہیں ۔ان کا قیافہ عموماً درست ہوتا ہے ۔کوئی مالدار ہو تو اُن کی آنکھیں شکرانہ پڑھتی نظر آتی ہیں ۔ان کے چہروں کا اُتار چڑھاؤ گاہک کی جیب پر ہوتا ہے ۔وزنی جیب ، مرمریں جسم ، طبلہ کی تھاپ ، گھنگھروؤں کی چھن چھن ، سارنگی کا لہرا ، باجے کی کمک آواز کا شعلہ ، غرضیکہ ہر شے سروں میں گھنی ہوتی ہے ، گاہک آتے اور جاتے ہیں جب کوئی آتا ہے تو کواڑ بند ہوجاتے ہیں ، نہیں تو کھلے رہتے ہیں۔ کواڑ کھلے ہوں تو کسبیاں بھی کھلی ہوتی ہیں ، کچھ فلمی رسالے یا جنسی ناول پڑھتی ہیں ، کچھ گاہکوں کی راہ تکتی ہیں کچھ سگرٹ سُلگا کر دھوئیں کے مرغولوں میں ان اجنبی مردوں کا تصور باندھتی ہیں جو انہیں کھلونا سمجھتے اور جنہیں یہ کھلونا سمجھتی ہیں ، لیکن کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی یا دکی ٹیسیں چھوڑ جاتے ہیں ، ان کسبیوں کے والدین ان کے ساتھ رہتے اور کمائی کھاتے ہیں۔ فی الجملہ ان سے پورا خاندان پلتا ہے ۔
جب رات ذرا اور گہری ہوجاتی ہے تو شاہی محلہ کی اندھیری گپھاؤں اور قلعہ کی سیڑھیوں کے نشیبی دورا ہہ پر طرح طرح کی کاریں آکر رُک جاتی ہیں اور اُس وقت تک کھڑی رہتی ہیں جب تک عشق کے ساز ٹوٹ نہیں جاتے اور حُسن کی موتیا کملا نہیں جاتی یا جب تک سوہنی کا جسم تھک نہیں جاتا اور مہینوال کی ہمت ٹھٹھر کریخ بستہ نہیں ہوجاتی ۔ بعض کن رسیے محض دیوارکے سہارے کھڑے رہتے اور کبھی کبھار سایہ دیوار ہی میں ان کی رات بستر ہوجاتی ہے۔
اور جب ہر طرف بکھری ہوئی مسجدوں کے میناروں سے’’ الصلواۃُ خیر من النوم ‘‘کی آواز گونجتی ہے تو خانزادوں کی رنگا رنگ کاریں بھرویں میں سارے گاما پا دھانی گاتے ہوئے بگٹٹ ہوجاتی ہیں اور اُن کے تعاقب میں کتوں کے مدھر گیت دور تک چلے جاتے ہیں۔ سورج جاگتا ہے قحبہ سوجاتی ہے اور اگر کچھ رہ جاتا ہے تو حکایت شبینہ کے غیر مرئی حروف جن سے چہروں پر ایک تھکن سی ہوتی ہے۔
بازار کیا ہے لالہ زار ہے ۔ہر شاخ کی کونپلیں شبنم سے نہیں سیم سے کھلتی ہیں ، انہیں دن کی چمک سُلادیتی اور رات کی کھٹک جگا دیتی ہے ، ان میں سے بعض عورتیں اناروں کے کُنج ہیں کہ دانہ دانہ پر مُہر لگی ہے ، بعض انگوروں کا گچھا ہیں کہ رندوں کا حلقہ نچوڑتا ہے ، بعض گوؤں کا چونا ہیں کہ گوالے دودھ دوہتے ہیں بعض کیلوں کی گہل ہیں کہ شوقین مزاج گودا کھا جاتے اور چھلکا پھینک دیتے ہیں ، بعض روٹیوں کی تھئی ہیں کہ نفس بھوکے ٹوٹے پڑتے ہیں اور بعض پانوں کی ڈھول ہیں کہ بانکے پتیاں چباتے اور چباتے ہی چلے جاتے ہیں ۔
عورتیں نہیں ، ساز کی دُھن ، طبلہ کی تھاپ ، رقص کا زاویہ ، اور بستر کی تنہائی ۔
چکلہ میں اُوپر نیچے ٹیکائیاں ہی ٹیکیائیاں ہیں۔۔۔ سستی عورتیں جن کی دوکانیں دوپہر کو کھلتی اور رات گئے بند ہوجاتی ہیں ۔۔۔ بارہ بجے دن سے بارہ بجے رات تک ۔۔۔۔ ( یہ وقت پولیس کا مقرر کیا ہوا ہے ۔ شفق ڈھلتی ہے تو بازار کی چہل پہل بھی بڑھ جاتی ہے ۔تمام دوکانیں ہنڈولوں سے جگمگانے لگتی ہیں ۔کہیں سو کینڈل پاور کے بلب لٹکتے دکھائی دیتے ہیں اور کہیں سُرخ لالیٹین۔ نیکی کے دم واپسیں کی طرح جھلملاتی نظر آتی ہیں ، بازار کا بھاؤ دو سے تین روپے تک ہے۔ کہیں کوئی جسم آٹھ آنے میں بھی مل جاتا ہے ۔ زیادہ تراٹک پارکی عورتیں ہیں جو اکثر و بیشتر پشاوری حقے کے کش لگاتی ہیں ، پنجاب کی عورتیں لگاتار سگریٹ پیتی ہیں ، جب رات اور بڑھ جاتی ہے تو ہر عمر کے تماشائی پلے پڑتے ہیں ، ایک ہجوم اور آتا ہے ، کھوے سے کھوا چلتا ہے ۔ان کے قہقہے اور تماشائیوں کے آوازے یا پھر اُن کے آوازے اور تماشائیوں کے قہقہے یکساں گونجتے ہیں ۔کچھ منچلے گالیاں لڑھکاتے اور گالیاں کھاتے ہیں ، ہر دریچہ کے باہر ٹھیکیداریا اُن کا گماشتہ کھڑا رہتا یا ٹہلتا ہے، جب سودا ہوچکتاہے تو رقم گماشتہ لے لیتا ہے یا ٹکیائی اندر رکھی ہوئی بند صندوقچی میں ڈال دیتی ہے ، تب دروازے پر کُنڈی چڑھا دی جاتی ہے۔ گاہک پردے پیچھے توشک پر چلا جاتا ہے۔وہ بدنصیب بستر سے پہلے بخشیش مانگتی ہے ۔حسن کے زور پر جسم کی آڑ میں ، اسلام ورسول کے نام پر ، کوئی خدا ترس اُس کے ہاتھ میں چونی یا اٹھنی تھما دیتا ہے تو وہ تشکر کے لہجہ میں کہتی ہے دیکھیو ! وہ جان جو باہر بیٹھا ہے اُس سے نہ کہنا، مجھ سے چھین لے گا ، اس مرحلے میں کبھی کبھار اُس کی عورت جگہ اُٹھتی ہے۔ اُس کے روح کے کھرنڈ کو کریدنے سے لہو کے جو ذرے اُبھرتے ہیں ان میں کیا کچھ نہیں ہوتا ؟ عورت ہوتی ہے ، ماں ہوتی ہے، بہن ہوتی ، بیوی ہوتی ہے، بیٹی ہوتی ہے ۔۔۔ ہونٹ ہلتے ہیں لیکن پکارتے ضرورہیں۔
خورشید نام کی ایک لڑکی اسی گلی میں اکہرے مکان کے چو بارے پر بیٹھی ہے اُس کے ایک ہم نشین زمرد ہے۔ دونوں کی عمر میں تھوڑا ہی فرق ہے ۔خورشید کا رنگ ملیح ہے۔ آنکھیں گول ۔پلکیں لانبیں۔ قد میانہ ۔ناک نقشہ تیکھا۔ آواز کی اصل پنجابی ہے لیکن لہجہ میں دہلی کا پیوند بھی لگا ہوا ہے، عموماً لٹھے کی شلوار اور پھولدار قمیص پہنتی ہے ۔کانوں میں سونے کی بالیاں جھلمل جھلمل کرتی ہیں ، نظربہ ظاہر کسی اچھے گھرانے کی ’’آبرو‘‘ معلوم ہوتی ہے لیکن زمانے کی ٹھوکر سے بے راہ ہوگئی ہے ، خورشید اور زمرد ، دونوں ہمارے پاس آبیٹھیں ، خورشید نے چھٹتے ہی سوال کیا ، کہیے کیا حکم ہے۔‘‘
’’ہم سات ہیں ‘‘
’’ہم دو ہیں ‘‘
’’صرف تم ؟ ‘‘
’‘ فی مہمان پانچ روپیہ ہوں گے کل 35روپے ۔‘‘
’’ہونہہ‘‘ زینہ کی طرف انگلی اُٹھاتے ہوئے ’’ آپ جا سکتے ہیں ۔تیس روپے میں تو مرغی بھی نہیں ملتی ہے۔‘‘
ہم نے تکلفاً مڑنا چاہا اُس نے روک لیا۔
’’ چار روپے ‘‘
’’جی نہیں تین روپے ‘‘
اُس نے سرد آدہ کھینچی اور کہا’’ اچھا تو نکالئے اکیس روپے ‘‘
ہم سب ٹھٹھر گئے۔ اختر اور قاضی میرا منہ تکنے لگے۔ قاضی کے رخساروں پر لٹکتا ہوا گوشت اور بھی لٹک گیا۔ اُس نے عینک کو دبیز شیشوں پر کمخواب کی پٹی پھرتے ہوئے دبے الفاظ میں کہا۔’’21روپے‘‘
وہ تاڑ گئی کہ خالی خولی جنٹلمین ہیں ، اُن کے ہونٹ ایک غلیظ سا فقرہ لڑھکانے کے لئے مضطرب ہی تھے کہ اختر نے جیب سے دوسرخے نکالے اور کہا ’’یہ لو بیس روپے ہیں۔ کچھ معلومات لینے آئے ہیں۔ اس کے علاوہ ہمارا کوئی مقصد نہیں‘‘
ؔ ’’معلومات‘‘
’’جی ہاں ‘‘
’’کیسی‘‘
’’ یہی آپ کے پیشہ کے متعلق ؟‘‘
’’تو آپ صبح تشریف لائیے ، اُس نے دس دس کے دو نوٹ مٹھی میں بھنیچتے ہوئے کہا آپ چاہیں تو یہ نوٹ واپس بھی لے سکتے ہیں‘‘
’’نہیں ، دن میں آنا مناسب نہیں ۔ اس وقت ہر خصوصیت معلوم ہو سکتی ہے۔ ‘‘
اُس نے ماتھے پر دو چار شکنیں ڈالیں کچھ سوچا اور کہا۔
’’ اچھا تو پوچھئے آپ کیا چاہتے ہیں۔‘‘
’’تمہارانام ‘‘
’’خورشید ‘‘
’’گھر کہاں ہے‘‘
’’جہاں آپ دیکھ رہے ہیں‘‘
’’ ہمارا مطلب ماں باپ کے گھر سے ہے ‘‘
’’یہ نہ پوچھیئے ؟ اس بازار کی کوئی عورت بھی اپنا صحیح پتہ بتانے کو تیار نہ ہوگی۔ ‘‘ ایک سردآہ کھینچتے ہوئے ’’بھلا یہاں عورتیں کہاں؟ یہ سب جسم ہیں یا گالی ! جو عورتیں بہ اصرار اپنا نام یا پتہ بتاتی ہیں وہ فریب دیتی ہیں سب جھوٹ ہوتا ہے‘‘ایک ملے جلے سوال کے جواب میں اُس نے کہا؟
’’غور سے دیکھئے یہ سب مکان نہیں ڈربے ہیں ۔ایک چھوٹے سے حجم کے ڈربہ کا کرایہ بھی سو سوا سو سے کیا کم ہے ، شہر میں ایسا مکان پانچ یا چھ روپے ماہانہ پر مل جاتا ہے لیکن اس لنکا میں ہر کوئی باون گز کا ہے ، مالک کا منشی ہر روز کرایہ وصولتا ہے ، تمام گلی کے مکان تین یا چار افراد کی ملکیت ہیں ، ان کی ہزار ہا روپیہ ماہوار آمدنی ہے ، جو عورت روزانہ کرایہ نہ دے سکے اُس کا سامان بلا توقف باہر پھینک دیا جاتا ہے۔ کئی لوگ پگڑی دینے کو تیار رہتے ہیں چونکہ آجکل کسا دبازاری ہے اس لئے بعض ڈربوں میں دو دو چار چار بیٹھتی اور گزر کرتی ہیں ، اکثر ٹھیکیدار کی مملوکہ ہیں اُن کا معاملہ دو لفظی ہے۔ جب تک ان کے جسم کی مانگ رہے وہ ٹھیکیدار کی دولت میں تواتر سے اضافہ کرتی چلی جاتی ہیں ۔جسم ڈھلتے ہی ٹھیکیدار نکال دیتے ہیں ، وہ دیکھئے سامنے ایک ڈلے ہوئے جسم کی کل سری لوہے کی کرسی پر بیٹھی ہے۔ اس نے اپنے مالک کے قحبہ خانے کی بنیاد رکھی جوانی بھر کما کر دیتی رہی ، اسی کی کمائی سے اُس نے گوشت پوشت کے بعض کھلونے خریدے ہیں۔ پر سوں ہی اُس نے مالک سے کہا گرمی زیادہ ہے ، مجھے بھی ایک پنکھالے دو ، اُس نے گالی لڑھکاتے ہوئے کہا یہ منہ اور مسور کی دال ۔تین روپے روز اڈے کا کرایہ۔ آٹھ آنے کی بجلی۔ آٹھ آنے پنکھے کے۔ ڈیڑھ روپے روز کی روٹی اور پھر کپڑالتا ۔ کماتی کیا ہو؟ کبھی چار اور کبھی پانچ ‘‘ اُس نے اصرار کیا تو اس بری طرح پیٹا کہ پناہ بخداد وہ چاہتا ہے یہ چلی جائے تو اس کی جگہ ایک اور جوان جسم آسکتا ہے۔
’’تو یہ چلی کیوں نہیں جاتی ‘‘۔۔۔ اختر نے سوال کیا
’’کہاں جائے ؟ اب ہڈیوں کا خول ہی تو ہے آپ نہیں جانتے ایک کسبی کا بڑھاپا بڑا ہی ویران ہوتا ہے۔ وہ دیکھئے ، اس طرف ایک معمر عورت مونڈھے پر بیٹھی ہے۔ اس کی کہانی بھی اس سے مختلف نہیں اب چارونا چار ’’آزاد ‘‘ ہے۔ بڑی مشکل سے دو چار روپیہ پیدا کرتی ہوگی۔ اس نے دو چھوٹی چھوٹٰی بچیاں خرید رکھی ہیں جنہیں بھائی کی بیٹیاں بتاتی ہیں ، خود گور کنارے آلگی ہے لیکن اس کے باوجود ان کی جوانی کے تصور سے مطمئن ہے‘‘
’’آخر یہ سب لڑکیاں کہاں سے آتی ہیں‘‘
اس نے زور کا ایک قہقہہ لگایا پھر بات اُٹھاتے ہوئے کہا’’اس گلی میں اس وقت کوئی چار سو کے لگ بھگ لڑکیاں ہوں گی ، آتی کہاں سے ہیں ؟ سنیئے ! کوئی دوڈھائی سو تو سرحد کے ٹھیکیداروں کی ملکیت ہیں جو سرحد ہی کے مضافات سے خرید کی گئی ہیں۔ ان میں سے بعض کو ان کے والدین روپیہ لے کر بیاہ دیتے اور ’’مصنوعی ‘‘ خاوند انہیں یہاں لا بٹھاتے ہیں ، کئی بردہ فروشوں سے مول لی گئی ہیں ، ان بردہ فروشوں کی کڑیاں دور دور تک پھیلی ہوئی ہیں ، جب کوئی عورت ایک چکلہ میں خاصی ہتھے چڑھ جاتی ہے تو پھر اُس کو دوسرے شہر کے لئے بیچ دیا جاتا ہے جو عورتیں اپنے طور پر بیٹھی ہیں اُن کی حیثیتیں مختلف ہیں مثلاً بعض یتیم خانوں سے اغوا کی گئی ہیں ، بعض کے والدین بیچ جاتے ہیں ، بعض سوتیلی ماں کے سولک سے تنگ آکر بھاگ آتی ہیں ، بعض کو جنسی لذت لے آتی ہے ، بعض کے آشنا دغادے جاتے ہیں ، بعض کا مسئلہ صرف پیٹ کا ہے اور اب بیسیوں مہاجرہ ہیں‘‘
’’کیا انہیں اس زندگی سے گھن نہیں آتی ؟‘‘
’’ضرور آتی ہے لیکن مجبور ہیں ۔‘‘
’’کیا مجبوری ہے ؟‘‘
اس نے پھر زناٹے کا ایک قہقہہ لگایا اور زمرد سے کہا ’’ سمندر کو آواز دو چینک چائے لے آئے۔مجبوری ڈھکی چھپی نہیں جو مالکوں کی قید میں ہیں ، وہ بے بس ہیں ، انہیں یقین ہو چکا ہے کہ ان کے متمول مالکون کا کچھ نہیں بگڑ سکتا وہ انہیں مجازی خدا سمجھتی ہیں۔
عورت اور روپیہ طاقت ور سفارش ہیں ، اُن کے سامنے قانون اور انصاف بھی گھٹنے ٹیک دیتے ہیں ، ان بدنصیبوں میں سے بعض کو تو یہ بھی معلوم نہیں کہ چکلے کے باہر کوئی اور دنیا بھی ہے یہ گاؤں کی لڑکیاں لاہور کو بھی گاؤں ہی سمجھتی ہیں ، اُن کے نزدیک ساری دُنیا ایک چکلہ ہے اور یہ اس چکلے کی ایک فرد ، پھر ایک کسبی کی فریاد سنتا کون ہے دُنیا مردوں کی ہے اور ان کے مالک مرد ہیں ، دُنیا دولت والوں کی ہے اور اُن کے آقا دولت والے ہیں ، فرض کیجئے یہاں سے بھاگ جائیں تو جائیں کہاں ؟ کیا کوئی مرد بستر بنائے بغیر عورت کو سہارا دینے کے لئے تیار ہے‘‘ ہم سن رہے تھے ،وہ قہر سامانی سے دل پر سچائیوں کی نوکدار حقیقتیں پھوڑ رہی تھی۔
جاری ہے
——
آپکو یہ ناول کیسا لگا؟
کمنٹس میں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔
عورتیں نہیں ۔۔۔ قبریں عورتیں نہیں۔۔۔ چتائیں
عورتیں نہیں ۔۔۔۔ ہچکیاں عورتیں نہیں ۔۔۔ آنسو،
فطرت کے آنسو ، انسان کے آنسو ، عورت کے آنسو ، خون کے آنسو ، آنسو ہی آنسو ۔۔
آدمی محسوس کرتا ہے خدا خاموش ہے۔ ٹبی سے باہر بازار شیخوپوریاں ہے ۔ہیرا منڈٰ کے چوک تک رنڈیوں کے مکان اور دوکانیں ہیں۔ اس علاقہ کا سب سے بڑا چودھری سیالکوٹ کا ہے۔ کوئی درجن ڈیڑ ھ درجن لڑکیاں اس کے تصرف میں ہیں ، اس کی روزانہ آمدنی چار پانچ سو روپے ہوگی ۔اس کے پاس رائفل ہے ، گولیاں ہیں کار ہے ، سواریاں ہیں ، تانگہ ہے گھوڑیاں ہیں ، دولت ہے ، اثر ہے ، رسُوخ ہے ، غرض سبھی کچھ ہے اس لئے کہ لڑکیاں ہیں۔
شاہی محلہ کی مختلف ٹکڑیوں میں یہ خانے ہی یہ خانے ہیں۔ ایک طرف ڈینٹل ہسپتال کے نکڑ پر ، دوسری طرف شاہی مسجد کو نکلتے ہوئے چوک میں بہت سے نوجوان کھڑے رہتے ہیں۔ ان کا کام دلالی ہے ، کھُسر پھُسر ہوتی ہے ، سودا چکتا اور جسم لے کر نکل جاتی ہے۔
ہیرا منڈی کے چوک سے کوچہ شہباز خاں کے آخری سرے تک پشتینی کنچنیوں کے مکانات ہیں۔ کچھ خاندانی رنڈیاں مدرسہ نعمانیہ کے آس پاس رہتی ہیں ، اکثر مرکھپ چکی ہیں۔ بعض کی اولاد بڑے بڑوں کے گھر میں اُٹھ گئی ہے اور بعض ابھی تک پُرانے ڈگر پر چل رہی ہیں۔
ہیرا منڈی او ٹبی بازار میں بڑا فرق ہے، ٹبی محض قصاب خانہ ہے، ہیرا منڈی تصویر خانہ ایک آرٹ گیلری جہاں راتیں جاگتی اور دن سوتے ہیں۔ اس علاقہ کے بالا خانوں میں دن ڈھلے قحبہ انگڑائیاں لے کر اُٹھ بیٹھتی ہیں ، رات کی پہلی کروٹ کے ساتھ ہی بازار جگمگانے لگتاہے، کوئی نو بجے شب دروازے کھل جاتی ہیں ، ہر بیٹھک کی تیاری مکمل ہو چکی ہے ، ہر کوئی آجا سکتا ہے لیکن ان بالا خانوں میں جانے کے لئے روپیہ اور ہمت کی ضرورت ہے۔ کئی حویلیاں نسلی کنچنوں کی ہیں ، یہ لوگ مالدار ہیں ، ہر ایراغیران کے ہاں نہیں آجا سکتا، ان کے ٹھاٹھ شاہانہ ہیں ، اُن کے جسم شاہی کھلونا ہیں، اُن کی محل سرائیں جدید و قدیم کے امتزاج کا نمونہ ہیں ۔ڈرائنگ روم ہیں ، خاصہ خانے اور خلوت خانے ہیں، قالین ہیں۔ ڈوریوں سے کسے ہوئے پلنگ ہیں ، فرش پر کھچی ہوئی ستھری چاندنی ہے ، چاندی کے نقشی پاندان ہیں ، پھولدار اُگالدان ہیں ، مغلئی حقے ہیں ، دیواروں پر جلی آئینے ہیں اور چھت گیریاں ہیں ، وسط میں جھاڑہیں۔ !
ایک طرف میراثی ساز لئے بیٹھے رہتے ہیں اور جب تک گاہک نہ آئیں پھبتیاں کستے ، لطیفے جھاڑتے اور حُقے پیتے ہیں ، ان کی شکلیں عجیب سی ہوتی ہیں ہر کوئی گھن لگا ایندھن ہے اکثر جواری ڈھنڈاری ہیں ، جو کچھ رات میں کماتے دن کو ہار دیتے ہیں ، خرانٹ صورت ہیں ، چرکٹے ہیں ، نٹ کھٹ ہیں ، چیپرغٹو ہیں ، اول جلول ہیں لیکن ہیں آٹھویں گانٹھ کمید ، انہیں رنڈیوں کے لاحقے اور سابقے کا نام دینا زیادہ بہتر ہے ، عام گنوارنیں انہیں اُستاد جی کہتی ہیں ۔فطرت نے رنڈی کے چہرے سے حیا اور میراثی کے چہرے سے رونق دونوں چھین رکھی ہیں۔
جب شوقین مزاج آتے ہیں تو یہ ایک نظر میں اُن کا جائزہ لیتے ہیں ۔ان کا قیافہ عموماً درست ہوتا ہے ۔کوئی مالدار ہو تو اُن کی آنکھیں شکرانہ پڑھتی نظر آتی ہیں ۔ان کے چہروں کا اُتار چڑھاؤ گاہک کی جیب پر ہوتا ہے ۔وزنی جیب ، مرمریں جسم ، طبلہ کی تھاپ ، گھنگھروؤں کی چھن چھن ، سارنگی کا لہرا ، باجے کی کمک آواز کا شعلہ ، غرضیکہ ہر شے سروں میں گھنی ہوتی ہے ، گاہک آتے اور جاتے ہیں جب کوئی آتا ہے تو کواڑ بند ہوجاتے ہیں ، نہیں تو کھلے رہتے ہیں۔ کواڑ کھلے ہوں تو کسبیاں بھی کھلی ہوتی ہیں ، کچھ فلمی رسالے یا جنسی ناول پڑھتی ہیں ، کچھ گاہکوں کی راہ تکتی ہیں کچھ سگرٹ سُلگا کر دھوئیں کے مرغولوں میں ان اجنبی مردوں کا تصور باندھتی ہیں جو انہیں کھلونا سمجھتے اور جنہیں یہ کھلونا سمجھتی ہیں ، لیکن کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی یا دکی ٹیسیں چھوڑ جاتے ہیں ، ان کسبیوں کے والدین ان کے ساتھ رہتے اور کمائی کھاتے ہیں۔ فی الجملہ ان سے پورا خاندان پلتا ہے ۔
جب رات ذرا اور گہری ہوجاتی ہے تو شاہی محلہ کی اندھیری گپھاؤں اور قلعہ کی سیڑھیوں کے نشیبی دورا ہہ پر طرح طرح کی کاریں آکر رُک جاتی ہیں اور اُس وقت تک کھڑی رہتی ہیں جب تک عشق کے ساز ٹوٹ نہیں جاتے اور حُسن کی موتیا کملا نہیں جاتی یا جب تک سوہنی کا جسم تھک نہیں جاتا اور مہینوال کی ہمت ٹھٹھر کریخ بستہ نہیں ہوجاتی ۔ بعض کن رسیے محض دیوارکے سہارے کھڑے رہتے اور کبھی کبھار سایہ دیوار ہی میں ان کی رات بستر ہوجاتی ہے۔
اور جب ہر طرف بکھری ہوئی مسجدوں کے میناروں سے’’ الصلواۃُ خیر من النوم ‘‘کی آواز گونجتی ہے تو خانزادوں کی رنگا رنگ کاریں بھرویں میں سارے گاما پا دھانی گاتے ہوئے بگٹٹ ہوجاتی ہیں اور اُن کے تعاقب میں کتوں کے مدھر گیت دور تک چلے جاتے ہیں۔ سورج جاگتا ہے قحبہ سوجاتی ہے اور اگر کچھ رہ جاتا ہے تو حکایت شبینہ کے غیر مرئی حروف جن سے چہروں پر ایک تھکن سی ہوتی ہے۔
بازار کیا ہے لالہ زار ہے ۔ہر شاخ کی کونپلیں شبنم سے نہیں سیم سے کھلتی ہیں ، انہیں دن کی چمک سُلادیتی اور رات کی کھٹک جگا دیتی ہے ، ان میں سے بعض عورتیں اناروں کے کُنج ہیں کہ دانہ دانہ پر مُہر لگی ہے ، بعض انگوروں کا گچھا ہیں کہ رندوں کا حلقہ نچوڑتا ہے ، بعض گوؤں کا چونا ہیں کہ گوالے دودھ دوہتے ہیں بعض کیلوں کی گہل ہیں کہ شوقین مزاج گودا کھا جاتے اور چھلکا پھینک دیتے ہیں ، بعض روٹیوں کی تھئی ہیں کہ نفس بھوکے ٹوٹے پڑتے ہیں اور بعض پانوں کی ڈھول ہیں کہ بانکے پتیاں چباتے اور چباتے ہی چلے جاتے ہیں ۔
عورتیں نہیں ، ساز کی دُھن ، طبلہ کی تھاپ ، رقص کا زاویہ ، اور بستر کی تنہائی ۔
چکلہ میں اُوپر نیچے ٹیکائیاں ہی ٹیکیائیاں ہیں۔۔۔ سستی عورتیں جن کی دوکانیں دوپہر کو کھلتی اور رات گئے بند ہوجاتی ہیں ۔۔۔ بارہ بجے دن سے بارہ بجے رات تک ۔۔۔۔ ( یہ وقت پولیس کا مقرر کیا ہوا ہے ۔ شفق ڈھلتی ہے تو بازار کی چہل پہل بھی بڑھ جاتی ہے ۔تمام دوکانیں ہنڈولوں سے جگمگانے لگتی ہیں ۔کہیں سو کینڈل پاور کے بلب لٹکتے دکھائی دیتے ہیں اور کہیں سُرخ لالیٹین۔ نیکی کے دم واپسیں کی طرح جھلملاتی نظر آتی ہیں ، بازار کا بھاؤ دو سے تین روپے تک ہے۔ کہیں کوئی جسم آٹھ آنے میں بھی مل جاتا ہے ۔ زیادہ تراٹک پارکی عورتیں ہیں جو اکثر و بیشتر پشاوری حقے کے کش لگاتی ہیں ، پنجاب کی عورتیں لگاتار سگریٹ پیتی ہیں ، جب رات اور بڑھ جاتی ہے تو ہر عمر کے تماشائی پلے پڑتے ہیں ، ایک ہجوم اور آتا ہے ، کھوے سے کھوا چلتا ہے ۔ان کے قہقہے اور تماشائیوں کے آوازے یا پھر اُن کے آوازے اور تماشائیوں کے قہقہے یکساں گونجتے ہیں ۔کچھ منچلے گالیاں لڑھکاتے اور گالیاں کھاتے ہیں ، ہر دریچہ کے باہر ٹھیکیداریا اُن کا گماشتہ کھڑا رہتا یا ٹہلتا ہے، جب سودا ہوچکتاہے تو رقم گماشتہ لے لیتا ہے یا ٹکیائی اندر رکھی ہوئی بند صندوقچی میں ڈال دیتی ہے ، تب دروازے پر کُنڈی چڑھا دی جاتی ہے۔ گاہک پردے پیچھے توشک پر چلا جاتا ہے۔وہ بدنصیب بستر سے پہلے بخشیش مانگتی ہے ۔حسن کے زور پر جسم کی آڑ میں ، اسلام ورسول کے نام پر ، کوئی خدا ترس اُس کے ہاتھ میں چونی یا اٹھنی تھما دیتا ہے تو وہ تشکر کے لہجہ میں کہتی ہے دیکھیو ! وہ جان جو باہر بیٹھا ہے اُس سے نہ کہنا، مجھ سے چھین لے گا ، اس مرحلے میں کبھی کبھار اُس کی عورت جگہ اُٹھتی ہے۔ اُس کے روح کے کھرنڈ کو کریدنے سے لہو کے جو ذرے اُبھرتے ہیں ان میں کیا کچھ نہیں ہوتا ؟ عورت ہوتی ہے ، ماں ہوتی ہے، بہن ہوتی ، بیوی ہوتی ہے، بیٹی ہوتی ہے ۔۔۔ ہونٹ ہلتے ہیں لیکن پکارتے ضرورہیں۔
خورشید نام کی ایک لڑکی اسی گلی میں اکہرے مکان کے چو بارے پر بیٹھی ہے اُس کے ایک ہم نشین زمرد ہے۔ دونوں کی عمر میں تھوڑا ہی فرق ہے ۔خورشید کا رنگ ملیح ہے۔ آنکھیں گول ۔پلکیں لانبیں۔ قد میانہ ۔ناک نقشہ تیکھا۔ آواز کی اصل پنجابی ہے لیکن لہجہ میں دہلی کا پیوند بھی لگا ہوا ہے، عموماً لٹھے کی شلوار اور پھولدار قمیص پہنتی ہے ۔کانوں میں سونے کی بالیاں جھلمل جھلمل کرتی ہیں ، نظربہ ظاہر کسی اچھے گھرانے کی ’’آبرو‘‘ معلوم ہوتی ہے لیکن زمانے کی ٹھوکر سے بے راہ ہوگئی ہے ، خورشید اور زمرد ، دونوں ہمارے پاس آبیٹھیں ، خورشید نے چھٹتے ہی سوال کیا ، کہیے کیا حکم ہے۔‘‘
’’ہم سات ہیں ‘‘
’’ہم دو ہیں ‘‘
’’صرف تم ؟ ‘‘
’‘ فی مہمان پانچ روپیہ ہوں گے کل 35روپے ۔‘‘
’’ہونہہ‘‘ زینہ کی طرف انگلی اُٹھاتے ہوئے ’’ آپ جا سکتے ہیں ۔تیس روپے میں تو مرغی بھی نہیں ملتی ہے۔‘‘
ہم نے تکلفاً مڑنا چاہا اُس نے روک لیا۔
’’ چار روپے ‘‘
’’جی نہیں تین روپے ‘‘
اُس نے سرد آدہ کھینچی اور کہا’’ اچھا تو نکالئے اکیس روپے ‘‘
ہم سب ٹھٹھر گئے۔ اختر اور قاضی میرا منہ تکنے لگے۔ قاضی کے رخساروں پر لٹکتا ہوا گوشت اور بھی لٹک گیا۔ اُس نے عینک کو دبیز شیشوں پر کمخواب کی پٹی پھرتے ہوئے دبے الفاظ میں کہا۔’’21روپے‘‘
وہ تاڑ گئی کہ خالی خولی جنٹلمین ہیں ، اُن کے ہونٹ ایک غلیظ سا فقرہ لڑھکانے کے لئے مضطرب ہی تھے کہ اختر نے جیب سے دوسرخے نکالے اور کہا ’’یہ لو بیس روپے ہیں۔ کچھ معلومات لینے آئے ہیں۔ اس کے علاوہ ہمارا کوئی مقصد نہیں‘‘
ؔ ’’معلومات‘‘
’’جی ہاں ‘‘
’’کیسی‘‘
’’ یہی آپ کے پیشہ کے متعلق ؟‘‘
’’تو آپ صبح تشریف لائیے ، اُس نے دس دس کے دو نوٹ مٹھی میں بھنیچتے ہوئے کہا آپ چاہیں تو یہ نوٹ واپس بھی لے سکتے ہیں‘‘
’’نہیں ، دن میں آنا مناسب نہیں ۔ اس وقت ہر خصوصیت معلوم ہو سکتی ہے۔ ‘‘
اُس نے ماتھے پر دو چار شکنیں ڈالیں کچھ سوچا اور کہا۔
’’ اچھا تو پوچھئے آپ کیا چاہتے ہیں۔‘‘
’’تمہارانام ‘‘
’’خورشید ‘‘
’’گھر کہاں ہے‘‘
’’جہاں آپ دیکھ رہے ہیں‘‘
’’ ہمارا مطلب ماں باپ کے گھر سے ہے ‘‘
’’یہ نہ پوچھیئے ؟ اس بازار کی کوئی عورت بھی اپنا صحیح پتہ بتانے کو تیار نہ ہوگی۔ ‘‘ ایک سردآہ کھینچتے ہوئے ’’بھلا یہاں عورتیں کہاں؟ یہ سب جسم ہیں یا گالی ! جو عورتیں بہ اصرار اپنا نام یا پتہ بتاتی ہیں وہ فریب دیتی ہیں سب جھوٹ ہوتا ہے‘‘ایک ملے جلے سوال کے جواب میں اُس نے کہا؟
’’غور سے دیکھئے یہ سب مکان نہیں ڈربے ہیں ۔ایک چھوٹے سے حجم کے ڈربہ کا کرایہ بھی سو سوا سو سے کیا کم ہے ، شہر میں ایسا مکان پانچ یا چھ روپے ماہانہ پر مل جاتا ہے لیکن اس لنکا میں ہر کوئی باون گز کا ہے ، مالک کا منشی ہر روز کرایہ وصولتا ہے ، تمام گلی کے مکان تین یا چار افراد کی ملکیت ہیں ، ان کی ہزار ہا روپیہ ماہوار آمدنی ہے ، جو عورت روزانہ کرایہ نہ دے سکے اُس کا سامان بلا توقف باہر پھینک دیا جاتا ہے۔ کئی لوگ پگڑی دینے کو تیار رہتے ہیں چونکہ آجکل کسا دبازاری ہے اس لئے بعض ڈربوں میں دو دو چار چار بیٹھتی اور گزر کرتی ہیں ، اکثر ٹھیکیدار کی مملوکہ ہیں اُن کا معاملہ دو لفظی ہے۔ جب تک ان کے جسم کی مانگ رہے وہ ٹھیکیدار کی دولت میں تواتر سے اضافہ کرتی چلی جاتی ہیں ۔جسم ڈھلتے ہی ٹھیکیدار نکال دیتے ہیں ، وہ دیکھئے سامنے ایک ڈلے ہوئے جسم کی کل سری لوہے کی کرسی پر بیٹھی ہے۔ اس نے اپنے مالک کے قحبہ خانے کی بنیاد رکھی جوانی بھر کما کر دیتی رہی ، اسی کی کمائی سے اُس نے گوشت پوشت کے بعض کھلونے خریدے ہیں۔ پر سوں ہی اُس نے مالک سے کہا گرمی زیادہ ہے ، مجھے بھی ایک پنکھالے دو ، اُس نے گالی لڑھکاتے ہوئے کہا یہ منہ اور مسور کی دال ۔تین روپے روز اڈے کا کرایہ۔ آٹھ آنے کی بجلی۔ آٹھ آنے پنکھے کے۔ ڈیڑھ روپے روز کی روٹی اور پھر کپڑالتا ۔ کماتی کیا ہو؟ کبھی چار اور کبھی پانچ ‘‘ اُس نے اصرار کیا تو اس بری طرح پیٹا کہ پناہ بخداد وہ چاہتا ہے یہ چلی جائے تو اس کی جگہ ایک اور جوان جسم آسکتا ہے۔
’’تو یہ چلی کیوں نہیں جاتی ‘‘۔۔۔ اختر نے سوال کیا
’’کہاں جائے ؟ اب ہڈیوں کا خول ہی تو ہے آپ نہیں جانتے ایک کسبی کا بڑھاپا بڑا ہی ویران ہوتا ہے۔ وہ دیکھئے ، اس طرف ایک معمر عورت مونڈھے پر بیٹھی ہے۔ اس کی کہانی بھی اس سے مختلف نہیں اب چارونا چار ’’آزاد ‘‘ ہے۔ بڑی مشکل سے دو چار روپیہ پیدا کرتی ہوگی۔ اس نے دو چھوٹی چھوٹٰی بچیاں خرید رکھی ہیں جنہیں بھائی کی بیٹیاں بتاتی ہیں ، خود گور کنارے آلگی ہے لیکن اس کے باوجود ان کی جوانی کے تصور سے مطمئن ہے‘‘
’’آخر یہ سب لڑکیاں کہاں سے آتی ہیں‘‘
اس نے زور کا ایک قہقہہ لگایا پھر بات اُٹھاتے ہوئے کہا’’اس گلی میں اس وقت کوئی چار سو کے لگ بھگ لڑکیاں ہوں گی ، آتی کہاں سے ہیں ؟ سنیئے ! کوئی دوڈھائی سو تو سرحد کے ٹھیکیداروں کی ملکیت ہیں جو سرحد ہی کے مضافات سے خرید کی گئی ہیں۔ ان میں سے بعض کو ان کے والدین روپیہ لے کر بیاہ دیتے اور ’’مصنوعی ‘‘ خاوند انہیں یہاں لا بٹھاتے ہیں ، کئی بردہ فروشوں سے مول لی گئی ہیں ، ان بردہ فروشوں کی کڑیاں دور دور تک پھیلی ہوئی ہیں ، جب کوئی عورت ایک چکلہ میں خاصی ہتھے چڑھ جاتی ہے تو پھر اُس کو دوسرے شہر کے لئے بیچ دیا جاتا ہے جو عورتیں اپنے طور پر بیٹھی ہیں اُن کی حیثیتیں مختلف ہیں مثلاً بعض یتیم خانوں سے اغوا کی گئی ہیں ، بعض کے والدین بیچ جاتے ہیں ، بعض سوتیلی ماں کے سولک سے تنگ آکر بھاگ آتی ہیں ، بعض کو جنسی لذت لے آتی ہے ، بعض کے آشنا دغادے جاتے ہیں ، بعض کا مسئلہ صرف پیٹ کا ہے اور اب بیسیوں مہاجرہ ہیں‘‘
’’کیا انہیں اس زندگی سے گھن نہیں آتی ؟‘‘
’’ضرور آتی ہے لیکن مجبور ہیں ۔‘‘
’’کیا مجبوری ہے ؟‘‘
اس نے پھر زناٹے کا ایک قہقہہ لگایا اور زمرد سے کہا ’’ سمندر کو آواز دو چینک چائے لے آئے۔مجبوری ڈھکی چھپی نہیں جو مالکوں کی قید میں ہیں ، وہ بے بس ہیں ، انہیں یقین ہو چکا ہے کہ ان کے متمول مالکون کا کچھ نہیں بگڑ سکتا وہ انہیں مجازی خدا سمجھتی ہیں۔
عورت اور روپیہ طاقت ور سفارش ہیں ، اُن کے سامنے قانون اور انصاف بھی گھٹنے ٹیک دیتے ہیں ، ان بدنصیبوں میں سے بعض کو تو یہ بھی معلوم نہیں کہ چکلے کے باہر کوئی اور دنیا بھی ہے یہ گاؤں کی لڑکیاں لاہور کو بھی گاؤں ہی سمجھتی ہیں ، اُن کے نزدیک ساری دُنیا ایک چکلہ ہے اور یہ اس چکلے کی ایک فرد ، پھر ایک کسبی کی فریاد سنتا کون ہے دُنیا مردوں کی ہے اور ان کے مالک مرد ہیں ، دُنیا دولت والوں کی ہے اور اُن کے آقا دولت والے ہیں ، فرض کیجئے یہاں سے بھاگ جائیں تو جائیں کہاں ؟ کیا کوئی مرد بستر بنائے بغیر عورت کو سہارا دینے کے لئے تیار ہے‘‘ ہم سن رہے تھے ،وہ قہر سامانی سے دل پر سچائیوں کی نوکدار حقیقتیں پھوڑ رہی تھی۔
جاری ہے
——
آپکو یہ ناول کیسا لگا؟
کمنٹس میں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔