اُس بازار میں ۔ طوائف کی ہوش ربا داستان الم از شو رش کاشمیری ۔ قسط نمبر 9
میرے والد پٹیالے میں اپنے گاؤں کے نمبردار تھے ان کا نام شیخ عطا محمد ہے وہ تین سو بیگھے بارانی اور تین سو پینسٹھ بیگھے نہری زمین کے مالک تھے ، جب بٹوارہ ہوگیا تو ہمیں گاؤں چھوڑنا پڑا ۔ریاست نے مسلمان پناہ گزینوں کے لئے بہادر گڑھ کیمپ جاری کر رکھا تھا سا را کنبہ وہیں پہنچ گیا۔ ہزار ہا لوگ تھے ہٹوارہ کیا تھا ایک زلزلہ تھا۔ چاروں طرف خون ہی خون تھا۔ ہند و صرافوں نے لاکھوں روپے کا سونا تیس 30روپے کے حساب سے خرید کیا۔ مہاراج کے فوجی صبح و شام کیمپ کا چکر لگاتے جو عورت پسند ہوتی اُٹھا کر لے جاتے ۔ ‘‘ اس پر اُس کی آواز کسی قدر روندھ گئی ۔۔۔ اکالی دل نہیں ٹڈی دل ۔۔۔ انسانی آبرو کو بری طرح اُجاڑ رہا تھا۔۔۔ ہزار ہا مسلمان بے حق دھاتوں کی طرح تھے باپ اور بھائی کے سامنے اُن کی بیٹی اور بہن کو ٹٹولا جاتا۔ حکم ہوتا نقابیں اُلٹ دو ۔سور ما لڑکیاں چُن لیتے۔ گویا لڑکیاں نہیں جامنیں ہیں ، کوئی قانون اور انصاف نہ تھا۔ بیس 20روپے سیر آٹا، دو آنے میں پانی کا گلاس اور چالیس 40روپے سیر نمک !‘‘
’’تم پر کیا بیتی۔۔۔ ؟ ‘‘
’’ ہم پر ۔۔۔ ماں نے تو کیمپ ہی میں دم توڑ دیاوالد کی عمر اسی برس کی ہے اور ہمیں اس حالت میں دیکھنے سے پہلے ہی اندھے ہو چکے ہیں ہم کل آٹھ جی ہیں بڑی بہن ، چھوٹی بہن ، بھتیجی ، تین چھوٹے بھائی باپ اور میں سب کا بوجھ میرے کندھوں پر ہے ‘‘
’’تمہارے ؟‘‘
’’جی ہاں ‘‘
’’ اور تم یہاں کیسے آئی ہو ؟ ‘‘
’’پاکستان تک تو خدا لایا تھا ، اِ س بازار میں پیٹ لے آیا ہے۔‘‘
’’کیا تمہارا سور ماؤں کے ہاتھ سے بچ نکلنا معجزہ نہیں ؟‘‘
’’جی ہاں ۔۔۔ وہ تو میں نے عرض کیا ناکہ خدا لے آیا ہے خان لیاقت علیخاں کی بدولت سپیشل ٹرین کا انتظام ہوگیا اور ہم شاہدرہ پہنچ گئے۔ ‘‘
’’پھر کیا ہوا‘‘
’’ہوتا کیا ؟ کئی روز تک وہاں کھلے میدان میں پڑے رہے ۔ پھر ادھیڑ عمر کے ایک شخص نے دستگیری کی اور خدا ترسی (اس پر وہ ذرا مسکرائی) کے جذبے میں گھر لے گیا۔ اُس کا مکان انار کلی میں تھا۔ ہمیں چھینٹ کے کپڑے سلوا دیے۔ اس کی باتوں میں شہدتھا۔ والد مکان وغیرہ الاٹ کرانے کی فکر میں تھے ہمارا یہ اجنبی مدد گار درخواستیں لے جاتا لیکن بے سود ، تیسرے چوتھے روز ایک عورت نے آنا شروع کیا اُس کا نام گلزار تھا۔ پہلے اکیلی آتی رہی ، پھر اُس کے ساتھ کچھ جوان لڑکیاں آنے لگیں۔ تمام ریشمی کپڑوں اور سونے کے زیورات میں لدی پھندی ہوتیں ایک دن اُس نے مجھے بہکانہ شروع کیا۔ ‘‘
’’ دیکھو تمہارا باپ اندھا ہوگیا اور قبر میں پاؤں لٹکائے بیٹھا ہے غیر کب تک روٹی کھلائی گا۔۔۔ گانا سیکھ لو اس میں کوئی برائی بھی نہیں ۔۔۔ ایک آرٹ ہے خدا مسبّب الاسباب ہے اس طرح روٹی کی فکر سے آزاد ہوجاؤ گی ۔ ‘‘ یہ میرے لئے ایک نیا مرحلہ تھا ۔ میرا انگ انگ کانپ گیا کئی خوف میرے سامنے آگئے خدا خوف ضمیر کا خوف انسان کا خوف باپ کا خوف اور اس ماں کی قبر کا خوف ، جس کی چھاتی سے ہم نے دودھ پیا تھا گلزار گھاٹ گھاٹ کا پانی پئے ہوئے تھی اُدھر اُس کی چکنی چپڑی باتیں تھیں ادھر ہمارا پیٹ خالی تھا، سو چادل نہ مانا ۔ انکار کیا تو اس کا اصرار بڑھا ۔۔۔ وہ شخص جو ہمیں اس مکان میں لایا تھا کئی روز سے غائب تھا۔
گلزار نے دیکھا سیدھی اُنگلیوں سے گھی نہیں نکلتا تو مطالبہ کیا تم پر اب تک آٹھ سو روپیہ خرچ ہوچکا ہے ادا کرو اور چلی جاؤ۔ اُس کا یہ کہنا تھا کہ پاؤں تلے سے زمین نکل گئی مرتا کیا نہ کرتا آخر اس بازار میں پہنچ گئے۔ اگلی صبح اُستاد جی اگئے۔ تعلیم شروع ہوگئی آواز میں لوچ تھا ہی اب ترتیب پاگیا اور ناچنا کچھ تو اس فضا سے سیکھا کچھ فلموں سے ۔ تھوڑے ہی دنوں میں آواز کی آڑ میں جسم کا چرچا ہوگیا۔ آپ یقین کیجئے میں نے ضمیر کی ایک ادنیٰ سی گھبراہٹ کے بعد اپنا جسم بیچ ڈالا اب ہم دونوں بہنیں بازار کا مال تھیں۔‘‘
’’تمہارا دل اس سے متنفر نہ ہوا ؟‘‘
’’کیوں نہیں ؟ لیکن یہ ماحول ہی ایسا ہے کہ جب کوئی آدمی کسی نی کسی طرح یہاں آپہنچتا ہے تو پھر یہیں کا ہوجاتا ہے۔‘‘
’’ کیا پٹیالہ میں تمہارا نکاح ہوچکا تھا ؟‘‘
’’جی ہاں ! میرے بہن نے خود طلاق حاصل کی اور مجھے طلاق مل گئی تھی ۔‘
’’کیا وجہ ہوئی ؟‘‘
’’یہ خاندانی جھگڑے کچھ عجیب سے ہوتے ہیں ، ان کے ذکر سے آپ کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔‘‘
’’ اچھا تم نے کچھ راگ بھی سیکھے ہیں ؟‘‘
’’ صرف ایک راگ جس کا کوئی نام نہیں۔۔۔ اور گانے والیاں تو اس بازار میں دو چار ہی ہوں گی ، ہمارا کام تو صرف خوش وقتی ہے۔‘‘
’’گلزار نے تمہیں کیا دیا ؟‘‘
’’ مجھے اور میرے متعلقین کو روٹی کپڑا۔‘‘
’’ اور تم نے اُس کو کیا دیا ؟‘‘
’’میں نے اس کو ایک سال میں چالیس ہزار سے زائد روپیہ کما کر دیا جس سے وہ ایک عالیشان بلڈنگ خرید چکی ہے۔‘‘
’’اب کہاں ہے وہ ؟‘‘
’’اسی بازار میں ہے اور کئی لڑکیوں کی مالکن ہے مجھ پر جب اُس کا جبر بڑھا تو میں نے ایک آدمی کے مشورے سے علیٰحدہ کاروبار شروع کیا۔ یہ دو کمرے ڈیڑھ سو روپیہ ماہوار کرایہ پر لے رکھے ہیں۔ خدا کے فضل سے اچھے دن گزر رہے ہیں۔‘‘
’’خدا کا فضل ۔۔۔ ؟‘‘
’’کیوں آپ کو اس پر تعجب ہے ؟ خدا کا فضل نہ ہو تو ہمارے لئے کوئی ٹھکانہ نہیں ، ہر کوئی ہمیں خانگی کر پُکارتا اور مویشی سمجھ کر ہنکارتا ہے ہماری عزت یا محنت صرف بستر تک ہے ، اس کے سوا کوئی عزت نہیں ۔‘‘
’’ تو آپ لوگ یہ پیشہ ترک کر دیں؟‘‘
’’ ہم تیار لیکن جائیں کہاں اور قبولے کون؟ لوگ کھیلتے ہیں بیاہتے نہیں ، کئی دفعہ اخباروں نے چکلے اُٹھا دینے کا شور برپا کیا ہے ، لیکن ہوتا ہواتا کچھ نہیں ، جو اُٹھانے والے ہیں وہ راتوں کو چوری چھپے آتے ہیں اورجو شور مچا رہے ہیں وہ صرف اس لئے کہ انگور کھٹے ہیں کس کا جی چاہتا ہے کہ شارع عام بنے اور محفوظ بہ لحظہ بکتی رہے ، عورت نہ ہوئی اخبار ہوگیا۔‘‘
’’لیکن حکومت پر زور تو دیا جا رہا ہے۔‘‘
وہ کھکھلا کر ہنس پڑی ۔۔۔ ’’ آپ بھی انجان بنتے ہیں حکومت کے لئے اورتھوڑے کام ہیں ، یہ ایک اخلاقی مسئلہ ہے اور اس کا تعلق پورے معاشرہ سے ہے۔‘‘
’’لیکن حکومت کے بھی تو کچھ فرائض ہوتے ہیں؟‘‘
’’جی ہاں ! کیوں نہیں ؟ وہ اپنے فرائض کو بڑی خوبی سے پورا کرتی ہے مثلاً ایک دفعہ قلعہ کی سیڑھیوں پر لیاقت علی خاں نے سلامی لی تھی تو قلعہ کی سیڑھیوں پر جو قالین بچھائے گئے تھے ہمارے ہی مکانوں سے گئے تھے۔ جب کبھی قلعہ سے باہر یا قلعہ کے اندر کوئی سرکاری تقریب ہوتی ہے قالین ہمارے ہاں ہی سے جاتے ہیں۔‘‘
’’ او ہو ! یہ تو ایک خبر ہے ۔‘‘
’’خبر کیسی ؟ راعی کا رعایا پر حق ہوتا ہے ہمیں تو سرکاری دنگل کے لئے بھی ٹکٹ خریدنے پڑتے ہیں۔‘‘
’’ آپ لوگ انکار کیوں نہیں کر دیتے ۔‘‘
’’خوب ! آپ بھی ہوا میں گرہ لگا رہے ہیں ۔ تو بعض اوقات تھانیدار کے مہمانوں کے لئے بستر بھیجنے پڑتے ہیں ، ایسا نہ کریں تو ہمارا کاروبار ایک دن میں ٹھپ ہوجائے۔ ہم لوگ عیبوں کی گٹھڑی ہیں جو شخص بھی یہاں آتا ہے وہ اخلاقی چور ہوتا ہے پولیس سے جھگڑا مول لے کر بھوکوں مرنے والی بات ہے بلکہ قید ہونے والی ۔‘‘
’’تم بیاہ کیوں نہیں کر لیتیں ۔‘‘
’’مجھ سے اور میرے جسم سے تو بیاہ کرنے والے کئی ہیں۔ نہ بھی ہوں تو پیدا ہو سکتے ہیں۔ لیکن میرے بوڑھے باپ اور ناچار کنبہ کی ذمہ داری کوئی نہیں لیتا۔ ایک دفعہ ایک مقامی بنک کا منیجر مجھے گھر لے گیا لیکن دوسرے ہی مہینے اُکتا گیا مجھے رکھنے کے لئے تیار تھا گھر والوں کو نہیں اور اب تو میں بیاہ کے لفظ ہی کو مذاق سمجھتی ہوں۔‘‘
’’اچھا تم نے کبھی کسی سے محبت کی ہے ؟‘‘
’’ محبت ۔۔۔ ‘‘ وہ ایک گہری سوچ میں ڈوب گئی
وہ یکا یک بولی’’ کبھی نہیں اور بالکل نہیں۔ محبت ایک فضول چیز ہے ۔ اس سے معزز خاندانوں کی کنواریوں کو تو دھوکا دیا جا سکتا ہے ہمیں نہیں ، ہم دوکاندار ہیں دوکاندار کا کام گاہک سے محبت کرنا نہیں ۔ جب کوئی شخص محبت جتاتا ہے تو ہم اُسے پاگل سمجھتی ہیں یا پھر یہ سمجھتی ہیں کہ اس کی گرہ میں مال نہیں رہا۔ ہمیں صرف ایک چیز سے محبت سے اور وہ ہے روپیہ ۔۔۔ ‘‘ اُس نے چاندی کا روپیہ کھنکھناتے ہوئے کہا ۔ ’’ اس روپیہ سے ؟‘‘
’’اور جو لوگ تہمارے مکانوں پر آتے ہیں ؟‘
’’وہ بے وقوف ہوتے ہیں یا اوباش ۔ بعض عجیب الخلقت بھی آتے ہیں، کوئی کہتا ہے تم میرے بن جاؤ ، میں تمہارے لئے بیوی چھوڑ سکتا ہوں ، کوئی ہمیں خار دینے کے لئے خواہ مخواہ بیوی کا ذکر لے آتا ہے ۔ اصل میں اس قسم کے لوگ گاودی ہوتے ہیں۔ جس مرد نے سہروں سے بیاہی ہوئی بیوی کی عزت نہ کی وہ ایک طوائف کی عزت کیسے کر سکتا ہے۔ ‘‘
’’ بہر حال یہ کام تو بُرا ہی ہے ۔‘‘
’’کیوں نہیں لیکن اس کی ذمہ دار عورتیں نہیں مرد ہیں ۔۔۔ ظالم مرد خدا کے دشمن ۔‘‘
’’ اس کا کوئی حل ہے ‘‘
’’ ضرور ہے یہاں کوئی تین ساڑھے تین ہزار عورتیں ہوں گے ۔ میر ابس ہو تو بڑے بڑے کنچنوں کی دولت مضبوط کرلوں اور جتنی اس پیشہ کی عورتیں ہیں ان میں برابر بانٹ دوں۔ دولت اتنی ہے کہ عمر بھر کے لئے سب کی کفالت کر سکتی ہے، ان میں سے اسی فیصدی کا نکاح ہوسکتا ہے اور جو معذور ہیں ، ان کے لئے کنچنوں کی دولت ہی سے ریسکیو ہوم RESCUE HOMEکھولے جا سکتے ہیں۔‘‘
’’ کیا اس کے لئے سب تیار ہوں گی ۔‘‘
’’ کیوں نہیں ! حرام کی چکنی روٹی سے آرام کی سوکھی روٹی کہیں بہتر ہے۔‘‘
’’کیا اس طرح فحاشی رُک سکتی ہے؟‘‘
’’یہ تو میں نہیں کہہ سکتی کہ فحاشی رُک سکتی ہے یا نہیں ؟ البتہ چکلہ ضرور ختم ہو سکتا ہے۔‘‘
وہ ہمیں بیشک سے اُٹھا کر خلوت خانے میں لے گئے ۔ ایک چھوٹا س کمرہ تھا لیکن وہ قرینہ سے سجا ہوا ایک طرف صوفہ سیٹ ایک ریڈیو دوسری طرف نواری پلنگ اُس کے اُوپر کی دیوار پر دو بڑے چوکھٹے لٹک رہے تھے، جن میں بہت سی تصویریں ایک ساتھ مڑھی ہوئی تھیں۔ اس کے نیچے بوڑھے اخبار ’’زمیندار ‘‘ کا ایک دلچسپ تصویری ترشہ تھا۔
’’ خان لیاقت علی خان پاک پارلیمنٹ میں قرار داد مقاصد پیش کر رہے ہیں۔‘‘
اس نے کھڑکی کھول دی ہمیں صوبے پر بیٹھنے کے لئے کہا خود پلنگ پر دراز ہوگئی ۔ سامنے ایک قطعہ لٹک رہا تھا۔
ؑ ؑ عصیاں سے کبھی ہم نے کنارا نہ کیا پر تونے دل آزردہ ہمارا نہ کیا
ہم نے تو جہنم کی بہت کی تدبیر لیکن تیری رحمت نے گوارا نہ کیا
اُس نے زاویہ قائمہ کے انداز میں انگڑائی لیتے ہوئے کہا ’’ مجھے شادی کرنے میں اب بھی کوئی غدر نہیں ۔ لیکن میں شوہر چاہتی ہوں ۔ اگر کوئی شخص مجھے اس امرکا یقین دلا دے کہ وہ عمر بھی مجھے یہ طعنہ نہ دے گا کہ اُس بازار سے آئی ہو تو میں موٹا جھوٹا پہن کر اور روکھی سوکھی کھا کر بھی گزارا کر سکتی ہوں زندگی بھر مکان کی چار دیواری سے باہر میری آواز نہ سنیں گے ۔ لیکن مجھ میں ماضی کا طعنہ سُننے کی ہمت نہیں ۔ جوعورتیں یہاں سے اُٹھ کر مردوں کے ساتھ چلی جاتی ہیں وہ غلط اُمیدوں پر جاتی ہیں۔ انہیں گر ہستن کہلانے کا واقعی شوق ہوتا ہے لیکن جب وہ محسوس کرتی ہیں کہ اب بھی اُن کے وجود پر گالی چڑھی ہوئی ہے تو اُن کی عورت پھر مرجاتی اور طوائف جاگ اُٹھتی ہے ، آخر کار وہ یہیں چلی آتی ہیں۔‘‘
ایک اور سوال کے جواب میں اُس نے کہا ۔ ’’ اب یہاں خاندانی کنچنوں کے مکان نہ ہونے کے برابر ہیں۔ یہی کوئی دس بیس گھر ہوں گے ، یہ جو آپ بھرا بازار دیکھ رہے ہیں۔ یہ سب نو ساختہ کنچنیوں کا ہے جنہیں بعض دوسرے اسباب یہاں کھینچ لائے ہیں۔ ‘‘
’’ وہ اسباب کیا ہیں ؟‘‘
’’ یہ ایک بڑی لمبی کہانی ہے ۔ کچھ دن اس بازار میں پھرئیے۔ آپ سب کچھ معلوم کر لیں گے مجھ سے نہ پوچھئے تو بہتر ہے ۔‘‘
تاہم ہمارے اصرار پر اس نے بتایا۔
’’ اس بازار کی آمدنی کے بڑے بڑے اڈے کو ٹھی جانے ہیں۔ ان کوٹھی جانوں میں سب کچھ ہوتا ہے مثلاً جسم بکتے ہیں ، شراب بکتی ہے ، افیون بکتی ہے اور جوا ہوتاہے۔ ‘‘
’’تو کیا یہ قانوناً جرم نہیں؟‘‘
’’جرم ہے ، لیکن قانون ، عورت اور روپیہ کے مقابلہ میں ہیچ ہے۔ ویسے تو کوٹھی خانے قائم کرنا ہی خلافِ قانون ہے ، لیکن ان پر پردہ ڈالنے کے لئے ساز رکھے ہوتے ہیں۔ ‘‘
’’کتنے کوٹھی خانے ہوں گے؟‘‘
’’چھوٹے چھوٹے کوٹھی خانے تو کئی ہیں ، لیکن بڑے چار ہیں۔ ‘‘
ا۔۔۔ کاکوٹھی خانے : ۔ یہ سیالکوٹی چودھری سب سے بڑی کوٹھی خانے کا مالک ہے۔ اس کے پاس دنیوی و جاہت کی ہر شے موجود ہے ۔ تقریباً ایک درجن لڑکیاں ہیں سب شکل و صورت میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر ہیں۔ اس نامراد کا کہناہے کہ جب تک وہ پانچ لاکھ روپیہ پیدا نہیں کر لے گا اس پیشہ کو چھوڑے گا نہیں۔ اس کا ذاتی خرچ روز کا سو ، سوا سو روپیہ ہے ۔ ہر وقت شراب میں دُھت رہتا ہے۔ اُس کی نائکہ بیوی جس کی شکل ڈراؤنی ہوتی جار ہی ہے اپنے فن میں بڑی ماہر ہے۔ اس کا کام صرف گاہکوں کو لوٹنا ہے جو اجنبی ایک دفعہ پھنس جائے وہ دوبارہ نہیں آتا ، آدمی آدمی کو پہچانتی ہے لیکن ایک نئے پنچھی کے پر کترنے میں اسے کمال حاصل ہے۔ ‘‘
’’ یہ لڑکیاں کہاں سے آتی ہیں؟‘‘
’’ کچھ تو باہر سے خریدی گئی ہے۔ بعض سے چودھری ’’صاحب ‘‘ نے نکاح پڑھایا ہے۔ یہ شخص اپنے حواریوں کی ایک جمعیت لے کر کسی گاؤں میں چلا جاتا ہے ۔وہاں اپنی رئیسی کا رُعب جماتا پھر ایک طے شدہ پروگرام کے مطابق کوئی نہ کوئی عورت بیاہ لاتا ہے ، خود نامرد ہے ۔ اُس کے پاس جتنی لڑکیاں ہیں سب اُس کے دھوکے کا شکار ہیں۔ وہ ان سے دولت پیدا کرتا ، دوستوں کونذر گردانتا اور عیاش افسروں کو چڑھاوا چڑھاتا ہے۔ بار ہا رائفل کے بے جا استعمال میں پکڑا گیا لیکن ہمیشہ چھوٹ گیا۔ اُس کی رائفل بھی ضبط نہیں ہوتی ۔یہ ان لڑکیاں کو رات بھر کے لئے باہر نہیں بھیجتا صرف ’’بڑوں‘‘ کی کوٹھیوں میں بھیجتا ہے۔ اس کا نرخ بھی گساں ہے۔ ایک شب کی قیمت سوسے اسی تک ، ایک مرحلہ کے بیس 20روپے ، دو روپے بستر کا کرایہ ، دو روپے دلال کے اور خلوت خانے میں جو کچھ لڑکی چھین لے وہ اس پر مستزاد۔‘‘
’’کیا ان لڑکیوں کا جی نہیں اُکتاتا۔۔۔؟‘‘
اس کے پاس جتنی بھی لڑکیاں ہیں اُن کی حالت بڑی قابل رحم ہے لیکن وہ ایک سنگدل قصائی کے قبضہ میں ہیں اور قرونِ وسطیٰ کے قید خانے کی زندگیاں گزار رہی ہیں۔ جس طرح گرہستنوں کا کام محض بچے پید اکرنا ہوتا ہے اسی طرح ان کا کام محض دولت پیدا کرنا ہے اور وہ بھی چودھری اور اس کی نائکہ کے لئے ۔۔۔ ان کے لئے اگر کچھ ہے تو روٹی یا کپڑا ، باقی اُنہیں کھڑکی سے باہر جھانکنے کی بھی اجازت نہیں۔۔۔ اُن کی زندگی ایک پھوڑا ہے ۔۔۔ ایک دفعہ ایک لڑکی نے بھاگنا چاہا ۔پکڑلی گئی پھر جو سلوک اُس سے کیا گیا وہ اثنا ظالمانہ تھا کہ تصور ہی سے روح کانپ اُٹھتی ہے۔ اس بدنصیب کو کئی روز تک بلاناغہ گھنٹہ دوگھنٹے لٹکایا گیا۔۔ ۔ اور مرچوں کی دھونی دی گئی۔۔۔ آخر کئی مردوں کے حوالے کیا گیا خود حُقہ کی نے منہ میں لئے تماشا دیکھتا رہا۔‘‘
’’ کیا اس کو خدا کا خوف نہیں ؟‘‘
اس نے استہزاً ہنستے ہوئے کہا۔ ’’ آپ بھی عجیب لوگ ہیں ۔۔۔ خدا کے خوف کا اس بازار سے کیا تعلق ؟ ہمیشہ قصرِ شہی اور قصرِ عیش خدا کے خوف سے خالی رہے ہیں۔ خدا ہوتا ۔۔۔ ؟ ‘‘ وہ جذباتی ہوگئی ۔’’ تو اس سامنے کو بڑی مسجد کے مینار صدیوں سے ساکت رہتے ؟ اور راوی کا پانی منٹو پارک تک آکر لوٹ جاتا ؟ انسانوں نے خدا کو لوٹ لیا ہے معاذ اللہ ۔‘‘
۲۔۔۔ دوسرا بڑا کوٹھی خانہ۔ اس کا مالک مغویہ عورتوں کی کمائی کھاتا ہے خود جواری ڈھنڈاری ہے جو لڑکیاں گھر سے بھاگ آتی اور ان کے آشنا دغادے جاتے ہیں اس ظالم کے کارندے انہیں پھنسا لاتے اور آہستہ آہستہ پیشہ پر لگا دیتے ہیں۔ اس پر کئی مقدمے چل چکے ہیں لیکن ہمیشہ بری ہوجاتا ہے ابھی حال ہی میں حسن بانو نام کی ایک لڑکی نے اس کے خلاف عدالت میں ایک دردناک بیان دیا تھا۔ خود چونکہ قانون کی نوک پلک جانتا ہے ، اس لئے ضابطہ کے اندررہ کر کاروبار کرتا ہے۔ اس کے ساتھ شہر کے خوفناک غنڈے ہیں۔ اُس کا دعویٰ ہے کہ وہ ایک رات بھی حوالات میں نہیں رہ سکتا ہے۔ ‘‘
جاری ہے
——
آپکو یہ ناول کیسا لگا؟
کمنٹس میں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔
’’تم پر کیا بیتی۔۔۔ ؟ ‘‘
’’ ہم پر ۔۔۔ ماں نے تو کیمپ ہی میں دم توڑ دیاوالد کی عمر اسی برس کی ہے اور ہمیں اس حالت میں دیکھنے سے پہلے ہی اندھے ہو چکے ہیں ہم کل آٹھ جی ہیں بڑی بہن ، چھوٹی بہن ، بھتیجی ، تین چھوٹے بھائی باپ اور میں سب کا بوجھ میرے کندھوں پر ہے ‘‘
’’تمہارے ؟‘‘
’’جی ہاں ‘‘
’’ اور تم یہاں کیسے آئی ہو ؟ ‘‘
’’پاکستان تک تو خدا لایا تھا ، اِ س بازار میں پیٹ لے آیا ہے۔‘‘
’’کیا تمہارا سور ماؤں کے ہاتھ سے بچ نکلنا معجزہ نہیں ؟‘‘
’’جی ہاں ۔۔۔ وہ تو میں نے عرض کیا ناکہ خدا لے آیا ہے خان لیاقت علیخاں کی بدولت سپیشل ٹرین کا انتظام ہوگیا اور ہم شاہدرہ پہنچ گئے۔ ‘‘
’’پھر کیا ہوا‘‘
’’ہوتا کیا ؟ کئی روز تک وہاں کھلے میدان میں پڑے رہے ۔ پھر ادھیڑ عمر کے ایک شخص نے دستگیری کی اور خدا ترسی (اس پر وہ ذرا مسکرائی) کے جذبے میں گھر لے گیا۔ اُس کا مکان انار کلی میں تھا۔ ہمیں چھینٹ کے کپڑے سلوا دیے۔ اس کی باتوں میں شہدتھا۔ والد مکان وغیرہ الاٹ کرانے کی فکر میں تھے ہمارا یہ اجنبی مدد گار درخواستیں لے جاتا لیکن بے سود ، تیسرے چوتھے روز ایک عورت نے آنا شروع کیا اُس کا نام گلزار تھا۔ پہلے اکیلی آتی رہی ، پھر اُس کے ساتھ کچھ جوان لڑکیاں آنے لگیں۔ تمام ریشمی کپڑوں اور سونے کے زیورات میں لدی پھندی ہوتیں ایک دن اُس نے مجھے بہکانہ شروع کیا۔ ‘‘
’’ دیکھو تمہارا باپ اندھا ہوگیا اور قبر میں پاؤں لٹکائے بیٹھا ہے غیر کب تک روٹی کھلائی گا۔۔۔ گانا سیکھ لو اس میں کوئی برائی بھی نہیں ۔۔۔ ایک آرٹ ہے خدا مسبّب الاسباب ہے اس طرح روٹی کی فکر سے آزاد ہوجاؤ گی ۔ ‘‘ یہ میرے لئے ایک نیا مرحلہ تھا ۔ میرا انگ انگ کانپ گیا کئی خوف میرے سامنے آگئے خدا خوف ضمیر کا خوف انسان کا خوف باپ کا خوف اور اس ماں کی قبر کا خوف ، جس کی چھاتی سے ہم نے دودھ پیا تھا گلزار گھاٹ گھاٹ کا پانی پئے ہوئے تھی اُدھر اُس کی چکنی چپڑی باتیں تھیں ادھر ہمارا پیٹ خالی تھا، سو چادل نہ مانا ۔ انکار کیا تو اس کا اصرار بڑھا ۔۔۔ وہ شخص جو ہمیں اس مکان میں لایا تھا کئی روز سے غائب تھا۔
گلزار نے دیکھا سیدھی اُنگلیوں سے گھی نہیں نکلتا تو مطالبہ کیا تم پر اب تک آٹھ سو روپیہ خرچ ہوچکا ہے ادا کرو اور چلی جاؤ۔ اُس کا یہ کہنا تھا کہ پاؤں تلے سے زمین نکل گئی مرتا کیا نہ کرتا آخر اس بازار میں پہنچ گئے۔ اگلی صبح اُستاد جی اگئے۔ تعلیم شروع ہوگئی آواز میں لوچ تھا ہی اب ترتیب پاگیا اور ناچنا کچھ تو اس فضا سے سیکھا کچھ فلموں سے ۔ تھوڑے ہی دنوں میں آواز کی آڑ میں جسم کا چرچا ہوگیا۔ آپ یقین کیجئے میں نے ضمیر کی ایک ادنیٰ سی گھبراہٹ کے بعد اپنا جسم بیچ ڈالا اب ہم دونوں بہنیں بازار کا مال تھیں۔‘‘
’’تمہارا دل اس سے متنفر نہ ہوا ؟‘‘
’’کیوں نہیں ؟ لیکن یہ ماحول ہی ایسا ہے کہ جب کوئی آدمی کسی نی کسی طرح یہاں آپہنچتا ہے تو پھر یہیں کا ہوجاتا ہے۔‘‘
’’ کیا پٹیالہ میں تمہارا نکاح ہوچکا تھا ؟‘‘
’’جی ہاں ! میرے بہن نے خود طلاق حاصل کی اور مجھے طلاق مل گئی تھی ۔‘
’’کیا وجہ ہوئی ؟‘‘
’’یہ خاندانی جھگڑے کچھ عجیب سے ہوتے ہیں ، ان کے ذکر سے آپ کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔‘‘
’’ اچھا تم نے کچھ راگ بھی سیکھے ہیں ؟‘‘
’’ صرف ایک راگ جس کا کوئی نام نہیں۔۔۔ اور گانے والیاں تو اس بازار میں دو چار ہی ہوں گی ، ہمارا کام تو صرف خوش وقتی ہے۔‘‘
’’گلزار نے تمہیں کیا دیا ؟‘‘
’’ مجھے اور میرے متعلقین کو روٹی کپڑا۔‘‘
’’ اور تم نے اُس کو کیا دیا ؟‘‘
’’میں نے اس کو ایک سال میں چالیس ہزار سے زائد روپیہ کما کر دیا جس سے وہ ایک عالیشان بلڈنگ خرید چکی ہے۔‘‘
’’اب کہاں ہے وہ ؟‘‘
’’اسی بازار میں ہے اور کئی لڑکیوں کی مالکن ہے مجھ پر جب اُس کا جبر بڑھا تو میں نے ایک آدمی کے مشورے سے علیٰحدہ کاروبار شروع کیا۔ یہ دو کمرے ڈیڑھ سو روپیہ ماہوار کرایہ پر لے رکھے ہیں۔ خدا کے فضل سے اچھے دن گزر رہے ہیں۔‘‘
’’خدا کا فضل ۔۔۔ ؟‘‘
’’کیوں آپ کو اس پر تعجب ہے ؟ خدا کا فضل نہ ہو تو ہمارے لئے کوئی ٹھکانہ نہیں ، ہر کوئی ہمیں خانگی کر پُکارتا اور مویشی سمجھ کر ہنکارتا ہے ہماری عزت یا محنت صرف بستر تک ہے ، اس کے سوا کوئی عزت نہیں ۔‘‘
’’ تو آپ لوگ یہ پیشہ ترک کر دیں؟‘‘
’’ ہم تیار لیکن جائیں کہاں اور قبولے کون؟ لوگ کھیلتے ہیں بیاہتے نہیں ، کئی دفعہ اخباروں نے چکلے اُٹھا دینے کا شور برپا کیا ہے ، لیکن ہوتا ہواتا کچھ نہیں ، جو اُٹھانے والے ہیں وہ راتوں کو چوری چھپے آتے ہیں اورجو شور مچا رہے ہیں وہ صرف اس لئے کہ انگور کھٹے ہیں کس کا جی چاہتا ہے کہ شارع عام بنے اور محفوظ بہ لحظہ بکتی رہے ، عورت نہ ہوئی اخبار ہوگیا۔‘‘
’’لیکن حکومت پر زور تو دیا جا رہا ہے۔‘‘
وہ کھکھلا کر ہنس پڑی ۔۔۔ ’’ آپ بھی انجان بنتے ہیں حکومت کے لئے اورتھوڑے کام ہیں ، یہ ایک اخلاقی مسئلہ ہے اور اس کا تعلق پورے معاشرہ سے ہے۔‘‘
’’لیکن حکومت کے بھی تو کچھ فرائض ہوتے ہیں؟‘‘
’’جی ہاں ! کیوں نہیں ؟ وہ اپنے فرائض کو بڑی خوبی سے پورا کرتی ہے مثلاً ایک دفعہ قلعہ کی سیڑھیوں پر لیاقت علی خاں نے سلامی لی تھی تو قلعہ کی سیڑھیوں پر جو قالین بچھائے گئے تھے ہمارے ہی مکانوں سے گئے تھے۔ جب کبھی قلعہ سے باہر یا قلعہ کے اندر کوئی سرکاری تقریب ہوتی ہے قالین ہمارے ہاں ہی سے جاتے ہیں۔‘‘
’’ او ہو ! یہ تو ایک خبر ہے ۔‘‘
’’خبر کیسی ؟ راعی کا رعایا پر حق ہوتا ہے ہمیں تو سرکاری دنگل کے لئے بھی ٹکٹ خریدنے پڑتے ہیں۔‘‘
’’ آپ لوگ انکار کیوں نہیں کر دیتے ۔‘‘
’’خوب ! آپ بھی ہوا میں گرہ لگا رہے ہیں ۔ تو بعض اوقات تھانیدار کے مہمانوں کے لئے بستر بھیجنے پڑتے ہیں ، ایسا نہ کریں تو ہمارا کاروبار ایک دن میں ٹھپ ہوجائے۔ ہم لوگ عیبوں کی گٹھڑی ہیں جو شخص بھی یہاں آتا ہے وہ اخلاقی چور ہوتا ہے پولیس سے جھگڑا مول لے کر بھوکوں مرنے والی بات ہے بلکہ قید ہونے والی ۔‘‘
’’تم بیاہ کیوں نہیں کر لیتیں ۔‘‘
’’مجھ سے اور میرے جسم سے تو بیاہ کرنے والے کئی ہیں۔ نہ بھی ہوں تو پیدا ہو سکتے ہیں۔ لیکن میرے بوڑھے باپ اور ناچار کنبہ کی ذمہ داری کوئی نہیں لیتا۔ ایک دفعہ ایک مقامی بنک کا منیجر مجھے گھر لے گیا لیکن دوسرے ہی مہینے اُکتا گیا مجھے رکھنے کے لئے تیار تھا گھر والوں کو نہیں اور اب تو میں بیاہ کے لفظ ہی کو مذاق سمجھتی ہوں۔‘‘
’’اچھا تم نے کبھی کسی سے محبت کی ہے ؟‘‘
’’ محبت ۔۔۔ ‘‘ وہ ایک گہری سوچ میں ڈوب گئی
وہ یکا یک بولی’’ کبھی نہیں اور بالکل نہیں۔ محبت ایک فضول چیز ہے ۔ اس سے معزز خاندانوں کی کنواریوں کو تو دھوکا دیا جا سکتا ہے ہمیں نہیں ، ہم دوکاندار ہیں دوکاندار کا کام گاہک سے محبت کرنا نہیں ۔ جب کوئی شخص محبت جتاتا ہے تو ہم اُسے پاگل سمجھتی ہیں یا پھر یہ سمجھتی ہیں کہ اس کی گرہ میں مال نہیں رہا۔ ہمیں صرف ایک چیز سے محبت سے اور وہ ہے روپیہ ۔۔۔ ‘‘ اُس نے چاندی کا روپیہ کھنکھناتے ہوئے کہا ۔ ’’ اس روپیہ سے ؟‘‘
’’اور جو لوگ تہمارے مکانوں پر آتے ہیں ؟‘
’’وہ بے وقوف ہوتے ہیں یا اوباش ۔ بعض عجیب الخلقت بھی آتے ہیں، کوئی کہتا ہے تم میرے بن جاؤ ، میں تمہارے لئے بیوی چھوڑ سکتا ہوں ، کوئی ہمیں خار دینے کے لئے خواہ مخواہ بیوی کا ذکر لے آتا ہے ۔ اصل میں اس قسم کے لوگ گاودی ہوتے ہیں۔ جس مرد نے سہروں سے بیاہی ہوئی بیوی کی عزت نہ کی وہ ایک طوائف کی عزت کیسے کر سکتا ہے۔ ‘‘
’’ بہر حال یہ کام تو بُرا ہی ہے ۔‘‘
’’کیوں نہیں لیکن اس کی ذمہ دار عورتیں نہیں مرد ہیں ۔۔۔ ظالم مرد خدا کے دشمن ۔‘‘
’’ اس کا کوئی حل ہے ‘‘
’’ ضرور ہے یہاں کوئی تین ساڑھے تین ہزار عورتیں ہوں گے ۔ میر ابس ہو تو بڑے بڑے کنچنوں کی دولت مضبوط کرلوں اور جتنی اس پیشہ کی عورتیں ہیں ان میں برابر بانٹ دوں۔ دولت اتنی ہے کہ عمر بھر کے لئے سب کی کفالت کر سکتی ہے، ان میں سے اسی فیصدی کا نکاح ہوسکتا ہے اور جو معذور ہیں ، ان کے لئے کنچنوں کی دولت ہی سے ریسکیو ہوم RESCUE HOMEکھولے جا سکتے ہیں۔‘‘
’’ کیا اس کے لئے سب تیار ہوں گی ۔‘‘
’’ کیوں نہیں ! حرام کی چکنی روٹی سے آرام کی سوکھی روٹی کہیں بہتر ہے۔‘‘
’’کیا اس طرح فحاشی رُک سکتی ہے؟‘‘
’’یہ تو میں نہیں کہہ سکتی کہ فحاشی رُک سکتی ہے یا نہیں ؟ البتہ چکلہ ضرور ختم ہو سکتا ہے۔‘‘
وہ ہمیں بیشک سے اُٹھا کر خلوت خانے میں لے گئے ۔ ایک چھوٹا س کمرہ تھا لیکن وہ قرینہ سے سجا ہوا ایک طرف صوفہ سیٹ ایک ریڈیو دوسری طرف نواری پلنگ اُس کے اُوپر کی دیوار پر دو بڑے چوکھٹے لٹک رہے تھے، جن میں بہت سی تصویریں ایک ساتھ مڑھی ہوئی تھیں۔ اس کے نیچے بوڑھے اخبار ’’زمیندار ‘‘ کا ایک دلچسپ تصویری ترشہ تھا۔
’’ خان لیاقت علی خان پاک پارلیمنٹ میں قرار داد مقاصد پیش کر رہے ہیں۔‘‘
اس نے کھڑکی کھول دی ہمیں صوبے پر بیٹھنے کے لئے کہا خود پلنگ پر دراز ہوگئی ۔ سامنے ایک قطعہ لٹک رہا تھا۔
ؑ ؑ عصیاں سے کبھی ہم نے کنارا نہ کیا پر تونے دل آزردہ ہمارا نہ کیا
ہم نے تو جہنم کی بہت کی تدبیر لیکن تیری رحمت نے گوارا نہ کیا
اُس نے زاویہ قائمہ کے انداز میں انگڑائی لیتے ہوئے کہا ’’ مجھے شادی کرنے میں اب بھی کوئی غدر نہیں ۔ لیکن میں شوہر چاہتی ہوں ۔ اگر کوئی شخص مجھے اس امرکا یقین دلا دے کہ وہ عمر بھی مجھے یہ طعنہ نہ دے گا کہ اُس بازار سے آئی ہو تو میں موٹا جھوٹا پہن کر اور روکھی سوکھی کھا کر بھی گزارا کر سکتی ہوں زندگی بھر مکان کی چار دیواری سے باہر میری آواز نہ سنیں گے ۔ لیکن مجھ میں ماضی کا طعنہ سُننے کی ہمت نہیں ۔ جوعورتیں یہاں سے اُٹھ کر مردوں کے ساتھ چلی جاتی ہیں وہ غلط اُمیدوں پر جاتی ہیں۔ انہیں گر ہستن کہلانے کا واقعی شوق ہوتا ہے لیکن جب وہ محسوس کرتی ہیں کہ اب بھی اُن کے وجود پر گالی چڑھی ہوئی ہے تو اُن کی عورت پھر مرجاتی اور طوائف جاگ اُٹھتی ہے ، آخر کار وہ یہیں چلی آتی ہیں۔‘‘
ایک اور سوال کے جواب میں اُس نے کہا ۔ ’’ اب یہاں خاندانی کنچنوں کے مکان نہ ہونے کے برابر ہیں۔ یہی کوئی دس بیس گھر ہوں گے ، یہ جو آپ بھرا بازار دیکھ رہے ہیں۔ یہ سب نو ساختہ کنچنیوں کا ہے جنہیں بعض دوسرے اسباب یہاں کھینچ لائے ہیں۔ ‘‘
’’ وہ اسباب کیا ہیں ؟‘‘
’’ یہ ایک بڑی لمبی کہانی ہے ۔ کچھ دن اس بازار میں پھرئیے۔ آپ سب کچھ معلوم کر لیں گے مجھ سے نہ پوچھئے تو بہتر ہے ۔‘‘
تاہم ہمارے اصرار پر اس نے بتایا۔
’’ اس بازار کی آمدنی کے بڑے بڑے اڈے کو ٹھی جانے ہیں۔ ان کوٹھی جانوں میں سب کچھ ہوتا ہے مثلاً جسم بکتے ہیں ، شراب بکتی ہے ، افیون بکتی ہے اور جوا ہوتاہے۔ ‘‘
’’تو کیا یہ قانوناً جرم نہیں؟‘‘
’’جرم ہے ، لیکن قانون ، عورت اور روپیہ کے مقابلہ میں ہیچ ہے۔ ویسے تو کوٹھی خانے قائم کرنا ہی خلافِ قانون ہے ، لیکن ان پر پردہ ڈالنے کے لئے ساز رکھے ہوتے ہیں۔ ‘‘
’’کتنے کوٹھی خانے ہوں گے؟‘‘
’’چھوٹے چھوٹے کوٹھی خانے تو کئی ہیں ، لیکن بڑے چار ہیں۔ ‘‘
ا۔۔۔ کاکوٹھی خانے : ۔ یہ سیالکوٹی چودھری سب سے بڑی کوٹھی خانے کا مالک ہے۔ اس کے پاس دنیوی و جاہت کی ہر شے موجود ہے ۔ تقریباً ایک درجن لڑکیاں ہیں سب شکل و صورت میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر ہیں۔ اس نامراد کا کہناہے کہ جب تک وہ پانچ لاکھ روپیہ پیدا نہیں کر لے گا اس پیشہ کو چھوڑے گا نہیں۔ اس کا ذاتی خرچ روز کا سو ، سوا سو روپیہ ہے ۔ ہر وقت شراب میں دُھت رہتا ہے۔ اُس کی نائکہ بیوی جس کی شکل ڈراؤنی ہوتی جار ہی ہے اپنے فن میں بڑی ماہر ہے۔ اس کا کام صرف گاہکوں کو لوٹنا ہے جو اجنبی ایک دفعہ پھنس جائے وہ دوبارہ نہیں آتا ، آدمی آدمی کو پہچانتی ہے لیکن ایک نئے پنچھی کے پر کترنے میں اسے کمال حاصل ہے۔ ‘‘
’’ یہ لڑکیاں کہاں سے آتی ہیں؟‘‘
’’ کچھ تو باہر سے خریدی گئی ہے۔ بعض سے چودھری ’’صاحب ‘‘ نے نکاح پڑھایا ہے۔ یہ شخص اپنے حواریوں کی ایک جمعیت لے کر کسی گاؤں میں چلا جاتا ہے ۔وہاں اپنی رئیسی کا رُعب جماتا پھر ایک طے شدہ پروگرام کے مطابق کوئی نہ کوئی عورت بیاہ لاتا ہے ، خود نامرد ہے ۔ اُس کے پاس جتنی لڑکیاں ہیں سب اُس کے دھوکے کا شکار ہیں۔ وہ ان سے دولت پیدا کرتا ، دوستوں کونذر گردانتا اور عیاش افسروں کو چڑھاوا چڑھاتا ہے۔ بار ہا رائفل کے بے جا استعمال میں پکڑا گیا لیکن ہمیشہ چھوٹ گیا۔ اُس کی رائفل بھی ضبط نہیں ہوتی ۔یہ ان لڑکیاں کو رات بھر کے لئے باہر نہیں بھیجتا صرف ’’بڑوں‘‘ کی کوٹھیوں میں بھیجتا ہے۔ اس کا نرخ بھی گساں ہے۔ ایک شب کی قیمت سوسے اسی تک ، ایک مرحلہ کے بیس 20روپے ، دو روپے بستر کا کرایہ ، دو روپے دلال کے اور خلوت خانے میں جو کچھ لڑکی چھین لے وہ اس پر مستزاد۔‘‘
’’کیا ان لڑکیوں کا جی نہیں اُکتاتا۔۔۔؟‘‘
اس کے پاس جتنی بھی لڑکیاں ہیں اُن کی حالت بڑی قابل رحم ہے لیکن وہ ایک سنگدل قصائی کے قبضہ میں ہیں اور قرونِ وسطیٰ کے قید خانے کی زندگیاں گزار رہی ہیں۔ جس طرح گرہستنوں کا کام محض بچے پید اکرنا ہوتا ہے اسی طرح ان کا کام محض دولت پیدا کرنا ہے اور وہ بھی چودھری اور اس کی نائکہ کے لئے ۔۔۔ ان کے لئے اگر کچھ ہے تو روٹی یا کپڑا ، باقی اُنہیں کھڑکی سے باہر جھانکنے کی بھی اجازت نہیں۔۔۔ اُن کی زندگی ایک پھوڑا ہے ۔۔۔ ایک دفعہ ایک لڑکی نے بھاگنا چاہا ۔پکڑلی گئی پھر جو سلوک اُس سے کیا گیا وہ اثنا ظالمانہ تھا کہ تصور ہی سے روح کانپ اُٹھتی ہے۔ اس بدنصیب کو کئی روز تک بلاناغہ گھنٹہ دوگھنٹے لٹکایا گیا۔۔ ۔ اور مرچوں کی دھونی دی گئی۔۔۔ آخر کئی مردوں کے حوالے کیا گیا خود حُقہ کی نے منہ میں لئے تماشا دیکھتا رہا۔‘‘
’’ کیا اس کو خدا کا خوف نہیں ؟‘‘
اس نے استہزاً ہنستے ہوئے کہا۔ ’’ آپ بھی عجیب لوگ ہیں ۔۔۔ خدا کے خوف کا اس بازار سے کیا تعلق ؟ ہمیشہ قصرِ شہی اور قصرِ عیش خدا کے خوف سے خالی رہے ہیں۔ خدا ہوتا ۔۔۔ ؟ ‘‘ وہ جذباتی ہوگئی ۔’’ تو اس سامنے کو بڑی مسجد کے مینار صدیوں سے ساکت رہتے ؟ اور راوی کا پانی منٹو پارک تک آکر لوٹ جاتا ؟ انسانوں نے خدا کو لوٹ لیا ہے معاذ اللہ ۔‘‘
۲۔۔۔ دوسرا بڑا کوٹھی خانہ۔ اس کا مالک مغویہ عورتوں کی کمائی کھاتا ہے خود جواری ڈھنڈاری ہے جو لڑکیاں گھر سے بھاگ آتی اور ان کے آشنا دغادے جاتے ہیں اس ظالم کے کارندے انہیں پھنسا لاتے اور آہستہ آہستہ پیشہ پر لگا دیتے ہیں۔ اس پر کئی مقدمے چل چکے ہیں لیکن ہمیشہ بری ہوجاتا ہے ابھی حال ہی میں حسن بانو نام کی ایک لڑکی نے اس کے خلاف عدالت میں ایک دردناک بیان دیا تھا۔ خود چونکہ قانون کی نوک پلک جانتا ہے ، اس لئے ضابطہ کے اندررہ کر کاروبار کرتا ہے۔ اس کے ساتھ شہر کے خوفناک غنڈے ہیں۔ اُس کا دعویٰ ہے کہ وہ ایک رات بھی حوالات میں نہیں رہ سکتا ہے۔ ‘‘
جاری ہے
——
آپکو یہ ناول کیسا لگا؟
کمنٹس میں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔
Leave a Reply