وہ لڑکی از عمیر راجپوت قسط 1
“کیٹ” جب بھی بوریت کا شکار ہوتی تو وہ اس عالیشان بنگلے کے پیچھے بنے باغیچے میں چہل قدمی کے لیے نکل آتی کیونکہ اتنے بڑے بنگلے میں وہ واحد گوشہ ہی اسے پر سکون جگہ محسوس ہوتی تھی….
ویسے تو اس بنگلے میں رہنے والے سبھی افراد اس کے آپنے تھے اور وہ سب اسے جی جان سے چاہتے تھے مگر اس دنیا میں والدین سے بڑھ کے قریبی اور مخلص رشتہ کوئ اور نہیں ہوتا اس لیے اسے جب بھی آپنے مرحوم والدین کی یاد ستاتی تو وہ اس باغیچے میں نکل آتی اور اس باغیچے میں موجود تمام درخت اور پودے اسے آپنے غمگسار اور ہمدرد نظر آتے….
اتنے عرصے بعد آج پھر اسے آپنے والدین کی شدت سے کمی محسوس ہو رہی تھی انسان بھی کتنی عجیب چیز ہے پوری زندگی خوشیوں کی خواہش میں گزار دیتا ہے اور یہ بھول جاتا ہے کے خوشیاں آپنوں کے ہی وجہ سے ہوتی ہیں جب آپنے قریبی ہی آپنے پاس نا ہوں تو بڑی خوشی بھی بے معنی ہوجاتی ہے اور یہ بات اس سے بہتر کوئ بھی نی جانتاتھا….
دو دن بعد اس کی زندگی کا نیا خوشیوں بھرا باب شروع ہونے جا رہا تھا ……….مائکل جسے وہ آٹھ برس سے شدت سے چاہتی آرہی تھی وہ اس کے ساتھ ایک نئ زندگی شروع کرنے جا رہی تھی اور یہ احساس کسی بھی محبت کرنے والے انسان کے لیے بے پناہ خوشی کا ہوتا ہے مگر اس کے باوجود بھی اسے یہ خوشی ادھوری محسوس ہورہی تھی…..
رات کے بارہ بجے تو دور سے گھنٹہ گھر میں گھنٹہ بجنے کی آواز سنائ دی…..
سردیوں کے دن تھے اس لیے کیٹ نے شدت سے لونگ بوٹ اور لیدر کی جیکٹ پہن رکھی تھی پورا بنگلہ پراسرار سناٹے میں ڈوبا ہوا تھا صرف چند لائٹس ہی جل رہی تھیں وہ چند لائٹس اتنے بڑے بنگلے کی تاریکی دور کرنے سے قاصر تھیں اور بنگلے کے پیچھے جانب باغ کے کونے میں ایک بلب جل رہا تھا جو دس کنال کے باغیچے کے باغیچے کے حساب سے نا ہونے کے برابر تھا چاند کی شروع کی تاریخیں تھیں اس لیے اندھیرا معمول سے کچھ زیادہ ہی تھا اور پھر اوپر سے ہونے والی داھند نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی تھی…..
کیٹ کو جب نیند آنے لگی تو وہ باغیچے کے درمیان میں موجود بنچ پر سے اٹھ کھڑی ہوئ اس نے واپس جانے کے بارے میں جیسے ہی سوچا….
اچانک باغیچے کے کونے میں لگے بلب کی روشنی کم ہونے لگی اور ساتھ ہی اسے آواز آنے لگی جیسے بلب اسپارکنگ کر رہا ہو….
کیٹ حیرت سے اچانک خراب ہونے والے بلب کو دیکھنے لگی جس کی روشنی کبھی کم اور کبھی زیادہ ہو رہی تھی کیٹ آہستہ آہستہ چلتی ہوئ بلب کے پاس آکے اسے حیرت سے دیکھنے لگی لیکین اس سے پہلے کہ وہ اس کی خرابی کی وجہ جان پاتی بلب کی روشنی یکدم اتنی تیز ہو گئ کہ کیٹ کو آپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھنا پڑا اور اس کے ساتھ ہی بلب دھماکے سے پھٹ گیا اور باغیچے میں یکدم گھپ اندھیرا چھا گیا…..
اففف””””” کیا مصیبت ہے اسے بھی ابھی خراب ہونا تھا””””” کیٹ بڑ بڑائ اور جیکٹ کی جیب سے آپنا سیل فون نکالا اس کی ٹارچ آن کی اور واپسی کے لیے مُڑی….
وہ ابھی بمشکل چند ہی قدم چلی تھی کہ اسے آپنے پیچھے آہٹ محسوس ہوئ تو وہ یکدم مڑی…
کون ہے……..؟
اس نے بے آپنی بے ترتیب دھڑکنوں پر قابو پاتے ہوئے کہا… مگر اسے بکھرے ہوئے خشک پتوں کے علاوہ کچھ نظر نا آیا اس نے آپنا وہم جانا اور پھر چل پڑی مگر اس بار وہ دو قدم ہی چلی کے اسے پھر آہٹ محسوس ہوئ اور اس بار تو اس نے باقاعدہ پتوں کی آواز سنی جیسے کوئ اسکے پیچھے دیمی چال چل کر آرہا ہو وہ مُڑی اور موبائل کی ٹارچ کی مدد سے ارد گرد دیکھنے لگی…..
ک…..کک……….کون ہے…. ؟
اس بار اس کے لہجے میں لرزش تھی مگر اسکی بات کا کسی نے جواب نہ دیا وہاں تھا تو صرف پرہول سناٹا وہ مُڑی اور اس بار اس قدر تیز قدموں سے چلنے لگی کیونکہ اب خوف کا احساس اسے اب ہونے لگا تھا تیز چلنے کی وجہ سے اسکا پاؤں کسی چیز سے الجھا اور وہ بُری طرح سے گِری…. موبائل اس کے ہاتھ سے نکل کر دور جا گِرا مگر اس کی روشنی کا رُخ اس کی طرف تھا اسے محسوس ہوا کہ کسی نے اس کا پاؤ پکڑ لیا….. برگد کے درخت کی ایک جڑ اسکے پاؤں سے لپٹی ہوئ تھی….. اس کے غور کرنے پر معلوم ہوا کے برگد کے درخت کی ایک جڑ اسکے پاؤ کے گِرد سانپ کی طرح بل کھا کر اس کا پاؤں جکڑنے لگی تو “کیٹ” کی آنکھیں یہ منظر دیکھ کر خوف سے پھیل گئ اس نے فوراً لونگ بوٹ کا تسمہ کھولا اور آپنا پیر بوٹ سے باہر نکال لیا….
اسکا پاؤں آذاد ہو گیا اور بنگلے کی جانب بھاگ کھڑی ہوئ اسے آپنے پیچھے بے پناہ پتوں کی کھڑ کھڑاہٹ اور ٹہنیوں کے چیخنے کی آواز سنائ دی تو اس نے بھاگتے بھاگتے مُڑ کر دیکھا تو خوف کے مارے اس کی جان نکل گئ کیونکہ اب تو برگد کا درخت تیزی سے اسکے پیچھے آرہا تھا یہ دیکھ کر وہ تیزی سے بھاگنے لگی اور دوڑتے دوڑتے گیلری میں گھسی تو گیلری کی دیوار پر لگی پینٹنگ کی تصویریں درخت کی شاخیں لگنے کی وجہ سے گر گئیں…..
کیٹ دوڑتی ہوئ آپنے کمرے میں داخل ہوئ اور اندر داخل ہوتے ہی اس نے تیزی سے دروازہ لاک کر دیا اور جلدی سے بیڈ پر چڑھ کے کمبل اوڑھ لیا دروازہ مضبوط لکڑی سے بنا تھا اس لیے اسے توڑنا آسان نا تھا تھوڑی دیر بعد یکدم دروازہ ہلنا بند ہو گیا…..
کیٹ کمبل ہٹا کے دروازے کو غور سے سے دیکھنے لگی اس کا انگ انگ پسینے میں ڈوبا ہوا کانپ رہا تھا شاید وہ چلا گیا……………. کیٹ نے تھوک نگلتے ہوئے سوچا مگر اس سے پہلے وہ کچھ اور سوچتی اس کی پشت پر موجود کھڑکی جو باغیچے کی جانب کھلتی تھی ایک دھماکے سے ٹوٹ کے اندر گری تو کیٹ نے پلٹ کے دیکھا اور اس کے ساتھ ہی پورا بنگلہ اس کی دل دوز چیخ سے گونج اٹھا……..
for more books – urdunovels.info ریلوے سٹیشن پر جیسے ہی ٹرین رُکی تو ٹرین کا خودکات دروازہ کھلا اور ایک نو جوان سوٹ کیس لیے اترا اس کے اترتے ہی ٹرین کا دروازہ بند ہوا اور ٹرین ایک بار پھر چل پڑی…….
اس سٹیشن کا وہ اکلوتا مسافر تھا اسٹیشن سن سنسان تھا اور وہاں کا عملہ بھی غائب تھا شاید انہیں بھی یہاں پر کسی کے آنے کی توقع نہیں تھی اس لیے وہ کہیں دبک کر سو رہے تھے ویسے بھی بھی شدید سردیوں کا موسم تھا اوپر سے رات کے 12 بج رہے تھے—— رہی سہی کسر طوفانی بارش نے پوری کردی تھی……
نو جوان سیاہ رنگ کے تھری پیس سوٹ میں ملبوس تھا—- بال بکھرے ہوئے تھے—– شیو ہلکی بڑھی ہوئ تھی —– سوٹ میں زرہ بھی شکن نہیں تھی لیکین اس نے اسے بے ترتیبی سے پہن رکھا تھا شرٹ کے اگلے دو بٹن کھلے تھے ٹائ ڈھیلی ہو کر گلے میں جھول رہی تھی چہرے کا رنگ سفید تھا مگر اس میں پیلاہٹ شبہ ہوتا تھا آنکھوں کے گِرد سیاہ ہلکے تھے اور آنکھیں ایسے سُرخ تھی جیسے وہ کافی دنو سے نا سویا ہو مجموعی طور پر وہ کافی ہینڈسم نوجوان تھا اس نے جیب سے سگریٹ کی ڈبی نکال کے اس میں سے سگریٹ نکالی اور لائٹر کی مدد سے سگرٹ سلگائ اور سوٹ کیس اٹھا کے بارش کی پرواہ کیے بغیر چل پڑا…..
سڑک پر ہوکا عالم طاری تھا اور سڑک کے کنارے سرچ لائٹس نہ ہونے کی وجہ سے رستہ دیکھنا کسی عام آدمی کے لیے کافی مشکل تھا لیکین وہ اس طرح کے حالات کا عادی معلوم ہوتا تھا اس لیے بے فکری سے سگریٹ پھونکتے چلا جارہا تھا……
بادلو کی چمک سے کبھی کبھی ماحول روشن ہوجاتا پھر گھپ اندھیرا چھا جاتا تھا وہ تیز بارش اور سردی کی شدت کو یوں ہی نظر انداز کیے چلا آرہا تھا جیسے یہ سب معنی نا رکھتی ہوں……
تین کلو میٹر یونہی پیدل چلنے کے بعد وہ ایک بڑے بیت بڑے بنگلے کے گیٹ پر پہنچا “””براؤن ولا””” اس نے گیٹ پر لگی تختی کو زیرلب پڑھا اور سگرٹ کا آخری کش لگا کے پھینک دیا اور گیٹ پر لگی بیل بجائ تو چند لمحوں بعد ایک گارڈ نے باہر جھانکا…..
کون ہو تم……؟ گارڈ نے سختی سے پوچھا مگر نوجوان نے کوئ جواب نا دیا کیونکہ وہ نئ سگریٹ سلگانے میں مصروف تھا…
میں نے پوچھا کون ہوتم……؟ گارڈ نے اور سختی سے پوچھا….
“””””جان ویک”””””” نوجوان نے بے فکری سے دھواں اڑاتے ہوا کہا… جو بھی ہو جاؤ یہاں سے ناجانے کہاں کہاں سے آجاتے ہیں———- گارڈ نے کہا اور گیٹ بند کرنا چاہا مگر گیٹ بند نا ہوا تو گارڈ نے حیرت سے نوجوان کو دیکھا جس نے گیٹ کے درمیان پاؤں رکھ دیا تھا…..
اتنی بھی کیا جلدی ہے میرے دوست”””””” نواجوان نے مسکرا کے کہا اس سے پہلے کے گارڈ اسے کوئ جواب دیتا اندر سے ایک خوش شکل نوجوان باہر نکلا ——- کہیں آپ جان ویک تو نہیں ہیں …….؟ نوجوان نے سوالیہ انداز میں پوچھا…. تو کیا مجھ سے پہلے بھی اس نام کا کوئ آدمی یہاں آیا تھا—– جان نے سگرٹ کا گہرا کش لگاتے ہوئے کہا….
اوہ سوری میں آپکو پہچان نی پایا آپ پلیز اندر آجائیں—– باہر آنے والے والے نوجوان نے شرمندگی سے کہا اور جان کو لیے ہوئے اندر داخل ہوا….. آپ نے آپنے آنے کی آگر اطلاع کر دی ہوتی تو میں خود آپ کو لینے اسٹیشن پہنچ جاتا آپکا کوئ فون نمبر بھی نہیں تھا ساتھ والے گرجا گھر کے فادر کے کہنے پر ہم نے شہر کے چرچ کو آپ کے نام خط لکھا ویسے حیرت ہے آپ ٹیکنالوجی کے اس دور میں میں بھی موبائل فون نہیں رکھتے——– نوجوان نے حیرانگی سے کہا….
ہاں مجھے نفرت ہے اس چیز سے جو انسان کا سکون برباد کرے….
جاری ہے
——
آپکو یہ ناول کیسا لگا؟
کمنٹس میں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔
ویسے تو اس بنگلے میں رہنے والے سبھی افراد اس کے آپنے تھے اور وہ سب اسے جی جان سے چاہتے تھے مگر اس دنیا میں والدین سے بڑھ کے قریبی اور مخلص رشتہ کوئ اور نہیں ہوتا اس لیے اسے جب بھی آپنے مرحوم والدین کی یاد ستاتی تو وہ اس باغیچے میں نکل آتی اور اس باغیچے میں موجود تمام درخت اور پودے اسے آپنے غمگسار اور ہمدرد نظر آتے….
اتنے عرصے بعد آج پھر اسے آپنے والدین کی شدت سے کمی محسوس ہو رہی تھی انسان بھی کتنی عجیب چیز ہے پوری زندگی خوشیوں کی خواہش میں گزار دیتا ہے اور یہ بھول جاتا ہے کے خوشیاں آپنوں کے ہی وجہ سے ہوتی ہیں جب آپنے قریبی ہی آپنے پاس نا ہوں تو بڑی خوشی بھی بے معنی ہوجاتی ہے اور یہ بات اس سے بہتر کوئ بھی نی جانتاتھا….
دو دن بعد اس کی زندگی کا نیا خوشیوں بھرا باب شروع ہونے جا رہا تھا ……….مائکل جسے وہ آٹھ برس سے شدت سے چاہتی آرہی تھی وہ اس کے ساتھ ایک نئ زندگی شروع کرنے جا رہی تھی اور یہ احساس کسی بھی محبت کرنے والے انسان کے لیے بے پناہ خوشی کا ہوتا ہے مگر اس کے باوجود بھی اسے یہ خوشی ادھوری محسوس ہورہی تھی…..
رات کے بارہ بجے تو دور سے گھنٹہ گھر میں گھنٹہ بجنے کی آواز سنائ دی…..
سردیوں کے دن تھے اس لیے کیٹ نے شدت سے لونگ بوٹ اور لیدر کی جیکٹ پہن رکھی تھی پورا بنگلہ پراسرار سناٹے میں ڈوبا ہوا تھا صرف چند لائٹس ہی جل رہی تھیں وہ چند لائٹس اتنے بڑے بنگلے کی تاریکی دور کرنے سے قاصر تھیں اور بنگلے کے پیچھے جانب باغ کے کونے میں ایک بلب جل رہا تھا جو دس کنال کے باغیچے کے باغیچے کے حساب سے نا ہونے کے برابر تھا چاند کی شروع کی تاریخیں تھیں اس لیے اندھیرا معمول سے کچھ زیادہ ہی تھا اور پھر اوپر سے ہونے والی داھند نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی تھی…..
کیٹ کو جب نیند آنے لگی تو وہ باغیچے کے درمیان میں موجود بنچ پر سے اٹھ کھڑی ہوئ اس نے واپس جانے کے بارے میں جیسے ہی سوچا….
اچانک باغیچے کے کونے میں لگے بلب کی روشنی کم ہونے لگی اور ساتھ ہی اسے آواز آنے لگی جیسے بلب اسپارکنگ کر رہا ہو….
کیٹ حیرت سے اچانک خراب ہونے والے بلب کو دیکھنے لگی جس کی روشنی کبھی کم اور کبھی زیادہ ہو رہی تھی کیٹ آہستہ آہستہ چلتی ہوئ بلب کے پاس آکے اسے حیرت سے دیکھنے لگی لیکین اس سے پہلے کہ وہ اس کی خرابی کی وجہ جان پاتی بلب کی روشنی یکدم اتنی تیز ہو گئ کہ کیٹ کو آپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھنا پڑا اور اس کے ساتھ ہی بلب دھماکے سے پھٹ گیا اور باغیچے میں یکدم گھپ اندھیرا چھا گیا…..
اففف””””” کیا مصیبت ہے اسے بھی ابھی خراب ہونا تھا””””” کیٹ بڑ بڑائ اور جیکٹ کی جیب سے آپنا سیل فون نکالا اس کی ٹارچ آن کی اور واپسی کے لیے مُڑی….
وہ ابھی بمشکل چند ہی قدم چلی تھی کہ اسے آپنے پیچھے آہٹ محسوس ہوئ تو وہ یکدم مڑی…
کون ہے……..؟
اس نے بے آپنی بے ترتیب دھڑکنوں پر قابو پاتے ہوئے کہا… مگر اسے بکھرے ہوئے خشک پتوں کے علاوہ کچھ نظر نا آیا اس نے آپنا وہم جانا اور پھر چل پڑی مگر اس بار وہ دو قدم ہی چلی کے اسے پھر آہٹ محسوس ہوئ اور اس بار تو اس نے باقاعدہ پتوں کی آواز سنی جیسے کوئ اسکے پیچھے دیمی چال چل کر آرہا ہو وہ مُڑی اور موبائل کی ٹارچ کی مدد سے ارد گرد دیکھنے لگی…..
ک…..کک……….کون ہے…. ؟
اس بار اس کے لہجے میں لرزش تھی مگر اسکی بات کا کسی نے جواب نہ دیا وہاں تھا تو صرف پرہول سناٹا وہ مُڑی اور اس بار اس قدر تیز قدموں سے چلنے لگی کیونکہ اب خوف کا احساس اسے اب ہونے لگا تھا تیز چلنے کی وجہ سے اسکا پاؤں کسی چیز سے الجھا اور وہ بُری طرح سے گِری…. موبائل اس کے ہاتھ سے نکل کر دور جا گِرا مگر اس کی روشنی کا رُخ اس کی طرف تھا اسے محسوس ہوا کہ کسی نے اس کا پاؤ پکڑ لیا….. برگد کے درخت کی ایک جڑ اسکے پاؤں سے لپٹی ہوئ تھی….. اس کے غور کرنے پر معلوم ہوا کے برگد کے درخت کی ایک جڑ اسکے پاؤ کے گِرد سانپ کی طرح بل کھا کر اس کا پاؤں جکڑنے لگی تو “کیٹ” کی آنکھیں یہ منظر دیکھ کر خوف سے پھیل گئ اس نے فوراً لونگ بوٹ کا تسمہ کھولا اور آپنا پیر بوٹ سے باہر نکال لیا….
اسکا پاؤں آذاد ہو گیا اور بنگلے کی جانب بھاگ کھڑی ہوئ اسے آپنے پیچھے بے پناہ پتوں کی کھڑ کھڑاہٹ اور ٹہنیوں کے چیخنے کی آواز سنائ دی تو اس نے بھاگتے بھاگتے مُڑ کر دیکھا تو خوف کے مارے اس کی جان نکل گئ کیونکہ اب تو برگد کا درخت تیزی سے اسکے پیچھے آرہا تھا یہ دیکھ کر وہ تیزی سے بھاگنے لگی اور دوڑتے دوڑتے گیلری میں گھسی تو گیلری کی دیوار پر لگی پینٹنگ کی تصویریں درخت کی شاخیں لگنے کی وجہ سے گر گئیں…..
کیٹ دوڑتی ہوئ آپنے کمرے میں داخل ہوئ اور اندر داخل ہوتے ہی اس نے تیزی سے دروازہ لاک کر دیا اور جلدی سے بیڈ پر چڑھ کے کمبل اوڑھ لیا دروازہ مضبوط لکڑی سے بنا تھا اس لیے اسے توڑنا آسان نا تھا تھوڑی دیر بعد یکدم دروازہ ہلنا بند ہو گیا…..
کیٹ کمبل ہٹا کے دروازے کو غور سے سے دیکھنے لگی اس کا انگ انگ پسینے میں ڈوبا ہوا کانپ رہا تھا شاید وہ چلا گیا……………. کیٹ نے تھوک نگلتے ہوئے سوچا مگر اس سے پہلے وہ کچھ اور سوچتی اس کی پشت پر موجود کھڑکی جو باغیچے کی جانب کھلتی تھی ایک دھماکے سے ٹوٹ کے اندر گری تو کیٹ نے پلٹ کے دیکھا اور اس کے ساتھ ہی پورا بنگلہ اس کی دل دوز چیخ سے گونج اٹھا……..
for more books – urdunovels.info ریلوے سٹیشن پر جیسے ہی ٹرین رُکی تو ٹرین کا خودکات دروازہ کھلا اور ایک نو جوان سوٹ کیس لیے اترا اس کے اترتے ہی ٹرین کا دروازہ بند ہوا اور ٹرین ایک بار پھر چل پڑی…….
اس سٹیشن کا وہ اکلوتا مسافر تھا اسٹیشن سن سنسان تھا اور وہاں کا عملہ بھی غائب تھا شاید انہیں بھی یہاں پر کسی کے آنے کی توقع نہیں تھی اس لیے وہ کہیں دبک کر سو رہے تھے ویسے بھی بھی شدید سردیوں کا موسم تھا اوپر سے رات کے 12 بج رہے تھے—— رہی سہی کسر طوفانی بارش نے پوری کردی تھی……
نو جوان سیاہ رنگ کے تھری پیس سوٹ میں ملبوس تھا—- بال بکھرے ہوئے تھے—– شیو ہلکی بڑھی ہوئ تھی —– سوٹ میں زرہ بھی شکن نہیں تھی لیکین اس نے اسے بے ترتیبی سے پہن رکھا تھا شرٹ کے اگلے دو بٹن کھلے تھے ٹائ ڈھیلی ہو کر گلے میں جھول رہی تھی چہرے کا رنگ سفید تھا مگر اس میں پیلاہٹ شبہ ہوتا تھا آنکھوں کے گِرد سیاہ ہلکے تھے اور آنکھیں ایسے سُرخ تھی جیسے وہ کافی دنو سے نا سویا ہو مجموعی طور پر وہ کافی ہینڈسم نوجوان تھا اس نے جیب سے سگریٹ کی ڈبی نکال کے اس میں سے سگریٹ نکالی اور لائٹر کی مدد سے سگرٹ سلگائ اور سوٹ کیس اٹھا کے بارش کی پرواہ کیے بغیر چل پڑا…..
سڑک پر ہوکا عالم طاری تھا اور سڑک کے کنارے سرچ لائٹس نہ ہونے کی وجہ سے رستہ دیکھنا کسی عام آدمی کے لیے کافی مشکل تھا لیکین وہ اس طرح کے حالات کا عادی معلوم ہوتا تھا اس لیے بے فکری سے سگریٹ پھونکتے چلا جارہا تھا……
بادلو کی چمک سے کبھی کبھی ماحول روشن ہوجاتا پھر گھپ اندھیرا چھا جاتا تھا وہ تیز بارش اور سردی کی شدت کو یوں ہی نظر انداز کیے چلا آرہا تھا جیسے یہ سب معنی نا رکھتی ہوں……
تین کلو میٹر یونہی پیدل چلنے کے بعد وہ ایک بڑے بیت بڑے بنگلے کے گیٹ پر پہنچا “””براؤن ولا””” اس نے گیٹ پر لگی تختی کو زیرلب پڑھا اور سگرٹ کا آخری کش لگا کے پھینک دیا اور گیٹ پر لگی بیل بجائ تو چند لمحوں بعد ایک گارڈ نے باہر جھانکا…..
کون ہو تم……؟ گارڈ نے سختی سے پوچھا مگر نوجوان نے کوئ جواب نا دیا کیونکہ وہ نئ سگریٹ سلگانے میں مصروف تھا…
میں نے پوچھا کون ہوتم……؟ گارڈ نے اور سختی سے پوچھا….
“””””جان ویک”””””” نوجوان نے بے فکری سے دھواں اڑاتے ہوا کہا… جو بھی ہو جاؤ یہاں سے ناجانے کہاں کہاں سے آجاتے ہیں———- گارڈ نے کہا اور گیٹ بند کرنا چاہا مگر گیٹ بند نا ہوا تو گارڈ نے حیرت سے نوجوان کو دیکھا جس نے گیٹ کے درمیان پاؤں رکھ دیا تھا…..
اتنی بھی کیا جلدی ہے میرے دوست”””””” نواجوان نے مسکرا کے کہا اس سے پہلے کے گارڈ اسے کوئ جواب دیتا اندر سے ایک خوش شکل نوجوان باہر نکلا ——- کہیں آپ جان ویک تو نہیں ہیں …….؟ نوجوان نے سوالیہ انداز میں پوچھا…. تو کیا مجھ سے پہلے بھی اس نام کا کوئ آدمی یہاں آیا تھا—– جان نے سگرٹ کا گہرا کش لگاتے ہوئے کہا….
اوہ سوری میں آپکو پہچان نی پایا آپ پلیز اندر آجائیں—– باہر آنے والے والے نوجوان نے شرمندگی سے کہا اور جان کو لیے ہوئے اندر داخل ہوا….. آپ نے آپنے آنے کی آگر اطلاع کر دی ہوتی تو میں خود آپ کو لینے اسٹیشن پہنچ جاتا آپکا کوئ فون نمبر بھی نہیں تھا ساتھ والے گرجا گھر کے فادر کے کہنے پر ہم نے شہر کے چرچ کو آپ کے نام خط لکھا ویسے حیرت ہے آپ ٹیکنالوجی کے اس دور میں میں بھی موبائل فون نہیں رکھتے——– نوجوان نے حیرانگی سے کہا….
ہاں مجھے نفرت ہے اس چیز سے جو انسان کا سکون برباد کرے….
جاری ہے
——
آپکو یہ ناول کیسا لگا؟
کمنٹس میں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔