وہ لڑکی عمیر راجپوت قسط 3
کچھ ہی دیر بعد کمرے کی لائٹ آن ہو گئ لڑکی بیہوش ہو چکی تھی جان نے آپنا ہاتھ جھٹک کر آگ بجا دی کمرے میں دھواں بھرا ہواتھا…..
یہ سب کیا تھا……؟ مائکل نے حیرانگی سے کھانستے ہوئے کہا کیونکہ دھوئیں کی وجہ سے کھانسی آنے لگی تھی…. یہ سلفر میں ڈوبا ہوا رومال تھا جو ان جیسوں کو راس نی آتا جان ویک نے لڑکی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا اور جلتے ہوئے رومال کو آپنے ہاتھ سے الگ کیا….
مائکل نے جان ویک کا جلا ہوا ہاتھ دیکھا تو ایک دم گھبرا گیا——- میں ابھی ڈاکٹر کو کال کرتا ہوں…. نہیں اسکی ضرورت نہیں ہے اسکی دوا ہے میرے پاس بس تم کھانے کا بندو بست کرو””””””” ہاں اسکی فکر مت کرو کل شام تک ہوش میں نہیں آئیگی “”‘جان نے کہا…
کیا یہ ٹھیک ہو گئ ہے….؟ مائکل نے سوالیہ انداز میں کہا… ہاں مگر کچھ گھنٹوں کے لیے اس کا مستقل حل نکالنے کے لیے دو دن لگیں گے….
اوکے میں آپکے کھانے کا بندو بست کرتا ہوں””مائکل نے کہا “” جان گہرے کش لگاتے ہوئے اس خوبصورت لڑکی کو دیکھ رہا تھا جو بیڈ پر بیہوش پڑی تھی…..
دوسرے دن جان ویک دس بجے اٹھا””” ملازمہ نے ناشتہ کمرے میں لا دیا تھا جان ویک ناشتہ کر کے سگرٹ سلگانے ہی لگا تھا اتنے میں مائکل کمرے میں داخل ہوا “”””””گڈ مارننگ”””””” مائکل نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا…..
گڈ مارننگ مگر مجھے تمہیں دیکھ کر لگ رہا تمہاری مارننگ اچھی نہیں ہوئ جان نے سگرٹ کا کش لگاتے ہوئے کہا…. ہاں میں اسی پریشانی کی وجہ سے سو نہیں پا رہا ہوں—— مائکل نے آنکھیں ملتے ہوئے کہا….
اچھا اب اس ہونے والے ہادثے کے بارے میں تفصیل سے بتاؤ جو اس لڑکی کے ساتھ رات کو پیش آیا جان نے مائکل کے سامنے بیٹھتے ہوئے کہا…..
یہ کوئ رات کے 12 بجے کی بات تھی کیٹ کے کمرے سے تیز چیخ سنائ دی تو ہم سب دوڑتے ہوئے کیٹ کے کمرے کی جانب گئے تمام نوکر بھی اکٹھے ہو چکے تھے ہم نے دیکھا کے گیلری کا سامان یوں بکھرا پڑا تھا جیسے کوئ طوفان آیا ہو جب ہم کمرے میں داخل ہونے کی کوشش کی تو معلوم ہوا دروازہ اندر سے لاک ہے ہم.نے بمشکل دروازہ توڑا اور اندر کا ماحول دیکھ کے ہم سب………….””””””” مائکل یہاں تک بول کر چُپ کر گیا اسکے ماتھے پر پسینا اور آنکھوں میں خوف تھا——- تو جان نے پاس پڑا پانی کا گلاس مائکل کے ہاتھ میں تھما دیا مائکل نے شکریہ کیہ کر پانی کا گلاس پیا اور خالی گلاس جان ویک کو دے دیا…..
اچھا تو پھر تم نے کیا دیکھا—- جان نے مائکل کے ہاتھ سے گلاس پکڑتے ہوئے کہا……
ہم نے دیکھا کمرے کی کھڑکی پوری کی پوری ٹوٹی ہوئ تھی اور کمرے کے فرش پر پتے بکھرے ہوئے تھے جیسے کمرے میں آندھی آئ ہو اور اس سے بھیانک بات یہ تھی کہ……… مائکل نے کانپتی آواز میں بولا اور لمبے سانس لینے لگا..
کیٹ کسی چھپکلی کی طرح چھت سے چمٹی ہوئ تھی— اسکی آنکھیں سُرخ تھی اور زبان باہر کو نکلی ہوئ تھی—- اور وہ کسی درندے کی طرح ہمیں دیکھ کر غرا رہی تھی—- ہماری سمجھ میں کچھ نی آرہا تھا خوف کے مارے بُرا حال تھا…..
پھر وہ آچانک ہی بےہوش کے گِری اور سیدھی بیڈ پر آئ جسکی وجہ سے اسے کوئ چوٹ نا آئ——- ہم نے فواً ڈاکٹر کو بلایا اسکو کچھ بھی سمجھ نا آیا تو چرچ کے فادر کے کہنے پر ہم نے آپکو خط لکھا…..آپ ہی ہماری آخری امید ہیں—– اتنا کہتے ہی مائکل پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا….. جان ویک اٹھ کر مائکل کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور بولا “” بے فکر رہو اب میں آگیا ہوں بہت جلد مسلہ حل کردونگا”” اس پہلے مائکل کوئ جواب دیتا ملازم اندر داخل ہوا اور مائکل کو مخاطب کیا..”””سر باہر فادر آئیں ہیں جان ویک سے ملنا چاہتے ہیں”””” اوکے تم انہیں ڈرائنگ روم میں بیٹھاؤ ہم آتے ہیں— مائکل نے کہا تو ملازم سر ہلا کر چلا گیا…. کیا خیال ہے فادر سے ملنا ہے……؟ کیوں نہیں ضرور جان نے کہا اور پھر مائکل ساتھ ڈرائنگ روم میں داخل ہوا تو فادر جان ویک کو دیکھ کر کھڑے ہو گئے…
اوہوووو گریٹ جان ویک ………تمہیں دیکھ کر یقین نہیں ہوتا میں تمہیں دیکھ رہا ہوں….فادر نے مسکرا کر کہا….
تو اب کر لو یقین فادر تمہارے سامنے ہی بیٹھا ہوں جان نے بے پرواہی سے سامنے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا جبکہ مائکل نے فادر سے مصافحہ کرتے ہوئے عقیدت سے ہاتھ چوم لیے….. مائکل بیٹا کیا تم ہم دونو کو کچھ وقت اکیلا دو گے…..؟فادر نے جان کو دیکھتے ہوئے کہا… “”””””کیوں نہیں میں بعد میں چکر لگاتا ہوں”””””” مائکل نے کہا اور کمرے سے باہر چلا گیا…..
for more books – urdunovels.info دیکھو جان تمہارے ساتھ جو بھی ہوا بہت بُرا ہوا اسکی وجہ سے تمہارہ خدا پر سے یقین اٹھ گیا لیکن ….”””
لیکن…….. کیا تم جانتے ہو اس دنیا میں صرف ایک ہی زات تھی جس سے میں سب سے زیادہ محبت کرتا تھا وہ میری بیوی گلوریا تھی اسے خدا پر اتنا یقین تھا وہ ہر سنڈے چرچ جایا کرتی تھی اور ساتھ مجھے بھی زبردستی لے جایا کرتی تھی ہمارا گھر………گھر سے زیادہ گِرجہ گھر لگتا تھا پھر کیا ہوا ایک دن میں کام سے واپس آیا تو میری بیوی گھر پر نہیں تھی تین دن بعد اسکی لاش ملی کسی کالے جادو کے عامل نے اسکا گلا کاٹ کے اسکے وجود کو جلا کر راکھ کر دیا صرف شیطان کی خوشنودی کے لیے اور آپکے خدا نے ہماری مدد تک نہیں کی کیوں……….؟ جان نے چلا کر کہا اسکی آنکھوں سے آنسؤں کا سیلاب بیہ رہا تھا…..
دیکھو بیٹا اوپر والے کے ہر کام میں مصلحت ہوتی ہے……. بہر حال مجھے خوشی ہوئ تم اس دُکھی خاندان کی مدد کرنے کو یہاں آگئے ہو اب میں چلتا ہوں آگر میری ضرورت پڑے بلا جھجھک رابطہ کرنا…..
فادر کو باہر آتا دیکھ کر مائیکل فوراً ایک جانب ہو گیا اور فادر کے جانے کے بعد اندر داخل ہوا اب جان ویک نارمل نظر آرہا تھا اسکی آنکھیں معمولی سی سُرخ تھیں جو مائیکل سے چھپا رہا تھا…. آپکو شاید یہ بات بُری لگے مگر میں باہر کھڑا تھا آپکی سب باتیں سُن لی میں نے— دیکھیں مجھے بہت افسوس ہے آپ کی بیوی کے بارے میں اور جو کچھ آپکے ساتھ ہوا ہے اور جیسی حثیت آپکی بیوی آپ کے لیے رکھتی تاحی کیٹ کے بارے میں میرے بھی وہی جزبات ہیں میں اسے ہر حال میں پہلے جیسا ٹھیک دیکھنا چاہتا ہوں…..
آپ ایک سیکولر ( روشن خیال خدا کو ماننے والا) ہیں جبکہ بھوت پریت اور شیطانی چکروں میں وہی انکو شکست دے سکتا ہے جو خدا کا پیارا اور ماننے والا ہو پر آپ خدا کو مانے بغیر کیسے انسے نمٹ لیتے ہیں—–مائکل نے کہا تو جان اسے غور سے دیکھا…..
جان ویک نے ایک لمبی سانس لی اور مائکل کے سوال پر خاموش ہوگیا….
گلوریا کے مرنے بعد مجھے شیطان اور شیطانی طاقتوں سے نفرت ہو گئ میں نے انکے بارے میں پڑھنا شروع کیا اور پانچ سال تک امریکہ کے جنگلوں سے لے کر تبت کی پہاڑوں اور مصر کے صحراؤں سے لے کر ہندوستان کے مندروں تک خاک چھانی ہے اور تب جا کر اس قابل ہوا کے ان شیطانی طاقتوں کو قابوں کر سکوں—— اور رہا سوال یہ جن اور بھوت کیسے بھاگتے ہہیں یہ بات آج شام کو تمہیں پتا چل جائیگی…….
جاری ہے
——
آپکو یہ ناول کیسا لگا؟
کمنٹس میں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔
یہ سب کیا تھا……؟ مائکل نے حیرانگی سے کھانستے ہوئے کہا کیونکہ دھوئیں کی وجہ سے کھانسی آنے لگی تھی…. یہ سلفر میں ڈوبا ہوا رومال تھا جو ان جیسوں کو راس نی آتا جان ویک نے لڑکی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا اور جلتے ہوئے رومال کو آپنے ہاتھ سے الگ کیا….
مائکل نے جان ویک کا جلا ہوا ہاتھ دیکھا تو ایک دم گھبرا گیا——- میں ابھی ڈاکٹر کو کال کرتا ہوں…. نہیں اسکی ضرورت نہیں ہے اسکی دوا ہے میرے پاس بس تم کھانے کا بندو بست کرو””””””” ہاں اسکی فکر مت کرو کل شام تک ہوش میں نہیں آئیگی “”‘جان نے کہا…
کیا یہ ٹھیک ہو گئ ہے….؟ مائکل نے سوالیہ انداز میں کہا… ہاں مگر کچھ گھنٹوں کے لیے اس کا مستقل حل نکالنے کے لیے دو دن لگیں گے….
اوکے میں آپکے کھانے کا بندو بست کرتا ہوں””مائکل نے کہا “” جان گہرے کش لگاتے ہوئے اس خوبصورت لڑکی کو دیکھ رہا تھا جو بیڈ پر بیہوش پڑی تھی…..
دوسرے دن جان ویک دس بجے اٹھا””” ملازمہ نے ناشتہ کمرے میں لا دیا تھا جان ویک ناشتہ کر کے سگرٹ سلگانے ہی لگا تھا اتنے میں مائکل کمرے میں داخل ہوا “”””””گڈ مارننگ”””””” مائکل نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا…..
گڈ مارننگ مگر مجھے تمہیں دیکھ کر لگ رہا تمہاری مارننگ اچھی نہیں ہوئ جان نے سگرٹ کا کش لگاتے ہوئے کہا…. ہاں میں اسی پریشانی کی وجہ سے سو نہیں پا رہا ہوں—— مائکل نے آنکھیں ملتے ہوئے کہا….
اچھا اب اس ہونے والے ہادثے کے بارے میں تفصیل سے بتاؤ جو اس لڑکی کے ساتھ رات کو پیش آیا جان نے مائکل کے سامنے بیٹھتے ہوئے کہا…..
یہ کوئ رات کے 12 بجے کی بات تھی کیٹ کے کمرے سے تیز چیخ سنائ دی تو ہم سب دوڑتے ہوئے کیٹ کے کمرے کی جانب گئے تمام نوکر بھی اکٹھے ہو چکے تھے ہم نے دیکھا کے گیلری کا سامان یوں بکھرا پڑا تھا جیسے کوئ طوفان آیا ہو جب ہم کمرے میں داخل ہونے کی کوشش کی تو معلوم ہوا دروازہ اندر سے لاک ہے ہم.نے بمشکل دروازہ توڑا اور اندر کا ماحول دیکھ کے ہم سب………….””””””” مائکل یہاں تک بول کر چُپ کر گیا اسکے ماتھے پر پسینا اور آنکھوں میں خوف تھا——- تو جان نے پاس پڑا پانی کا گلاس مائکل کے ہاتھ میں تھما دیا مائکل نے شکریہ کیہ کر پانی کا گلاس پیا اور خالی گلاس جان ویک کو دے دیا…..
اچھا تو پھر تم نے کیا دیکھا—- جان نے مائکل کے ہاتھ سے گلاس پکڑتے ہوئے کہا……
ہم نے دیکھا کمرے کی کھڑکی پوری کی پوری ٹوٹی ہوئ تھی اور کمرے کے فرش پر پتے بکھرے ہوئے تھے جیسے کمرے میں آندھی آئ ہو اور اس سے بھیانک بات یہ تھی کہ……… مائکل نے کانپتی آواز میں بولا اور لمبے سانس لینے لگا..
کیٹ کسی چھپکلی کی طرح چھت سے چمٹی ہوئ تھی— اسکی آنکھیں سُرخ تھی اور زبان باہر کو نکلی ہوئ تھی—- اور وہ کسی درندے کی طرح ہمیں دیکھ کر غرا رہی تھی—- ہماری سمجھ میں کچھ نی آرہا تھا خوف کے مارے بُرا حال تھا…..
پھر وہ آچانک ہی بےہوش کے گِری اور سیدھی بیڈ پر آئ جسکی وجہ سے اسے کوئ چوٹ نا آئ——- ہم نے فواً ڈاکٹر کو بلایا اسکو کچھ بھی سمجھ نا آیا تو چرچ کے فادر کے کہنے پر ہم نے آپکو خط لکھا…..آپ ہی ہماری آخری امید ہیں—– اتنا کہتے ہی مائکل پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا….. جان ویک اٹھ کر مائکل کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور بولا “” بے فکر رہو اب میں آگیا ہوں بہت جلد مسلہ حل کردونگا”” اس پہلے مائکل کوئ جواب دیتا ملازم اندر داخل ہوا اور مائکل کو مخاطب کیا..”””سر باہر فادر آئیں ہیں جان ویک سے ملنا چاہتے ہیں”””” اوکے تم انہیں ڈرائنگ روم میں بیٹھاؤ ہم آتے ہیں— مائکل نے کہا تو ملازم سر ہلا کر چلا گیا…. کیا خیال ہے فادر سے ملنا ہے……؟ کیوں نہیں ضرور جان نے کہا اور پھر مائکل ساتھ ڈرائنگ روم میں داخل ہوا تو فادر جان ویک کو دیکھ کر کھڑے ہو گئے…
اوہوووو گریٹ جان ویک ………تمہیں دیکھ کر یقین نہیں ہوتا میں تمہیں دیکھ رہا ہوں….فادر نے مسکرا کر کہا….
تو اب کر لو یقین فادر تمہارے سامنے ہی بیٹھا ہوں جان نے بے پرواہی سے سامنے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا جبکہ مائکل نے فادر سے مصافحہ کرتے ہوئے عقیدت سے ہاتھ چوم لیے….. مائکل بیٹا کیا تم ہم دونو کو کچھ وقت اکیلا دو گے…..؟فادر نے جان کو دیکھتے ہوئے کہا… “”””””کیوں نہیں میں بعد میں چکر لگاتا ہوں”””””” مائکل نے کہا اور کمرے سے باہر چلا گیا…..
for more books – urdunovels.info دیکھو جان تمہارے ساتھ جو بھی ہوا بہت بُرا ہوا اسکی وجہ سے تمہارہ خدا پر سے یقین اٹھ گیا لیکن ….”””
لیکن…….. کیا تم جانتے ہو اس دنیا میں صرف ایک ہی زات تھی جس سے میں سب سے زیادہ محبت کرتا تھا وہ میری بیوی گلوریا تھی اسے خدا پر اتنا یقین تھا وہ ہر سنڈے چرچ جایا کرتی تھی اور ساتھ مجھے بھی زبردستی لے جایا کرتی تھی ہمارا گھر………گھر سے زیادہ گِرجہ گھر لگتا تھا پھر کیا ہوا ایک دن میں کام سے واپس آیا تو میری بیوی گھر پر نہیں تھی تین دن بعد اسکی لاش ملی کسی کالے جادو کے عامل نے اسکا گلا کاٹ کے اسکے وجود کو جلا کر راکھ کر دیا صرف شیطان کی خوشنودی کے لیے اور آپکے خدا نے ہماری مدد تک نہیں کی کیوں……….؟ جان نے چلا کر کہا اسکی آنکھوں سے آنسؤں کا سیلاب بیہ رہا تھا…..
دیکھو بیٹا اوپر والے کے ہر کام میں مصلحت ہوتی ہے……. بہر حال مجھے خوشی ہوئ تم اس دُکھی خاندان کی مدد کرنے کو یہاں آگئے ہو اب میں چلتا ہوں آگر میری ضرورت پڑے بلا جھجھک رابطہ کرنا…..
فادر کو باہر آتا دیکھ کر مائیکل فوراً ایک جانب ہو گیا اور فادر کے جانے کے بعد اندر داخل ہوا اب جان ویک نارمل نظر آرہا تھا اسکی آنکھیں معمولی سی سُرخ تھیں جو مائیکل سے چھپا رہا تھا…. آپکو شاید یہ بات بُری لگے مگر میں باہر کھڑا تھا آپکی سب باتیں سُن لی میں نے— دیکھیں مجھے بہت افسوس ہے آپ کی بیوی کے بارے میں اور جو کچھ آپکے ساتھ ہوا ہے اور جیسی حثیت آپکی بیوی آپ کے لیے رکھتی تاحی کیٹ کے بارے میں میرے بھی وہی جزبات ہیں میں اسے ہر حال میں پہلے جیسا ٹھیک دیکھنا چاہتا ہوں…..
آپ ایک سیکولر ( روشن خیال خدا کو ماننے والا) ہیں جبکہ بھوت پریت اور شیطانی چکروں میں وہی انکو شکست دے سکتا ہے جو خدا کا پیارا اور ماننے والا ہو پر آپ خدا کو مانے بغیر کیسے انسے نمٹ لیتے ہیں—–مائکل نے کہا تو جان اسے غور سے دیکھا…..
جان ویک نے ایک لمبی سانس لی اور مائکل کے سوال پر خاموش ہوگیا….
گلوریا کے مرنے بعد مجھے شیطان اور شیطانی طاقتوں سے نفرت ہو گئ میں نے انکے بارے میں پڑھنا شروع کیا اور پانچ سال تک امریکہ کے جنگلوں سے لے کر تبت کی پہاڑوں اور مصر کے صحراؤں سے لے کر ہندوستان کے مندروں تک خاک چھانی ہے اور تب جا کر اس قابل ہوا کے ان شیطانی طاقتوں کو قابوں کر سکوں—— اور رہا سوال یہ جن اور بھوت کیسے بھاگتے ہہیں یہ بات آج شام کو تمہیں پتا چل جائیگی…….
جاری ہے
——
آپکو یہ ناول کیسا لگا؟
کمنٹس میں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔