وہ لڑکی عمیر راجپوت قسط نمبر 5
جان آہستہ آہستہ ریلوے اسٹیشن کی جانب پیدل چلا جا رہا تھا سردیوں کا موسم تھا رات کا پچھلا پہر تھا سڑک سنسان تھی کے اچانک جان کو سینے میں تکلیف ہوئ جو آکثر ہلکی ہلکی اسے محسوس ہوتی تھی تو اس نے گلے میں پڑی ڈھیلی ٹائ کو اور ڈھیلا کر دیا اس کے ساتھ اسے زور دار انداز میں کھانسی آنے لگی وہ سڑک پر رکھے ایک بینچ پر بیٹھ گیا اس نے دونو ہاتھوں سے سر تھام لیا اسے الٹی آنے لگی اس نے قے کی اور دیکھا اسے خون کی الٹی آرہی تھی……
“””””شاید میرا آخری وقت آگیا ہے”””””””
جان نے دل ہی دل میں سوچا اور اسکی آنکھوں میں اور ویرانی چھاگئ…..
“””””میرے خیال میں آپکو اسکی ضرورت ہے””””‘” کسی کی آواز اس کے کانو میں پڑی تو اس نے دیکھا اس کے ساتھ بینچ پر سفید لباس میں ملبوس ایک باریش نواجوان بیٹھا تھا…… “”””””ویسے تو میں یہ کسی اور کے لیے لے جارہا تھا مگر اب مجھے محسوس ہورہا کہ اس وقت آپ سے زیادہ ضرورت کسی کو نہیں””””””” نوجوان نے پانی کا چھوٹا کین جان کی جانب بڑھاتے ہوئے کہا تو جان نے اس کین کو پکڑت ہی منہ سے لگا لیا اور پانی کا ایک قطرہ بھی نا چھوڑا……
“”””شکریہ””””” جان پانی پی کر بنچ کی پشت سے ٹیک لگا کے آنکھیں بند کر لیں…..
“”””اگر آپ بُرا نا منائیں تو ایک بات کہوں…؟”””” نوجوان نے پُر اخلاق لہجے میں کہا….
“””بولو”””” جان بدستور آنکھیں بند کر کےکہا…. مجھے لگتا آپ بھی میری طرح بنجارے ہو جو ادھر اُدھر گھومتے رہتے ہیں انسان کےبنجارہ ہونے کی دو وجہ ہوتی ایک یا کسی کی تلاش ہو یا پھر وہ کسی سے بھاگ رہا ہو……
“””اچھا……تو تم کونسی نسل کے ہو””””” جان نے بے دلی سے پوچھا… مجھے کسی کی تلاش ہے نوجوان نے مسکرا کرکہا…..
“””کس کی….”” جان نے لا پرواہی سے پوچھا…. خدا کی … جان اسکی بات سنتے ہی طنزیہ مسکرا دیا….
تو کیا پھر خدا ملا..؟ جان نے طنزیہ انداز میں پوچھا….
“”””””ہاں اس وقت میرے سامنے ہی تو ہے”””””” نو جوان نے مسکرا کر کہا تو جان آنکھیں کھول کر حیرت سے دیکھنے لگا….. جب ہم کسی دُکھی انسان کی مدد کرتے ہیں تو اسکے چہرے پر جو خوشی نظر آتی ہے اس میں خدا دکھائ دیتا ہے…..
“””””””مگر مجھے تو ایسا کبھی نظر نہیں آیا “””””””” جان نے شرمندگی سے کہا…. کیونکہ آپکی نظر کا زاویہ درست نہیں ہے—— اچھا اب میں چلتا ہوں نوجوان اٹھ کر چل دیا اور جان حیرانگی سے اسے جاتے ہوئے دیکھ رہا تھا…..
for more books – urdunovels.info¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤
مائیکل کیٹ کے بیڈ کے ساتھ بے بسی سے کھڑا تھا اس کی آنکھیں سوئ ہوئ کیٹ کو دیکھ کے بھر آئ تھی تمام گھر والے کیٹ سے مایوس ہو چکے تھے اتنی بری طرح سہمے ہوئے تھے کے سب کے سب آپنے کمروں میں بند تھے ملازموں نے تو اب کیٹ کے کمرے کی جانب آنا ہی چھوڑ دیا تھا اس لیے صرف مائکل ہی وہاں موجود تھا….
“”””دیکھو تم کون ہو اور کیا چاہتے ہو میں نہیں جانتا صرف اتنا جانتا ہوں کہ کیٹ بہت معصوم ہے خدا کے لیے اسے چھوڑ دو””””” مائکل نے جزباتی انداز میں کہا تو کیٹ کی آنکھیں ایک جھٹکے سے کھل گئیں اس کی آنکھیں اور چہرے کے تاثرات نارمل تھے مائکل کی آنکھیں بند تھیں اور اس لیے وہ کیٹ کو ہوش میں آتا نا دیکھ سکا….. “””””مائکل”””””” کیٹ نے پکارا تو مائیکل نے جلدی سے آنکھیں کھولی…. “””” مائکل یہ سب کیا ہے اور مجھے اس طرح رسیوں سے کیوں باندھ رکھا ہے کیٹ نے حیرت سے رسیوں کو دیکھتے ہوئے کہا—-اسے نارمل دیکھ کر مائیکل آگے بڑھا…… “”””کیٹ””””‘وہ تم بیمار تھی…….ناں…. مائکل کے منہ سے رک..رک کر نکلا….. “”کیا…. مجھے کیا ہوا تھا جو مجھے اس طرح باندھا گیا….؟ کیٹ نے آپنا ہاتھ رسی سے آزاد کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا مگر ناکام رہی…..
کیٹ کا یوں اچانک ٹھیک ہو جانا کسی معجزے سے کم نہیں تھا….
میں بلکل ٹھیک ہوں مجھے انسے آزاد کرواؤ—- کیٹ نے کہا….
ہاں…….مگر مائکل نےکہنا چاہا….
مگر کیا مجھ پر کوئ دیوانگی کا دورہ پڑھ رہا تھا میں کاٹ کھانے کو دوڑتی تھی جو مجھے اس طرح باندھ رکھا جانوروں کی طرح…کیٹ نے غصے سے کہا….
ہاں کیٹ….. کچھ ایسا ہی تھا… مائکل کو سمجھ نی آرہی تھی وہ کیسے کہے کیٹ سے…….
اچھا جو بھی تھا اب میں بلکل ٹھیک ہوں مجھے کھولو—-کیٹ نے کہا…
کیا تم سچ میں ٹھیک ہو کیٹ…؟ مائکل نے خوش ہوتے ہوئے کہا….
“””””ہاں تو کیا اب مجھے لکھ کر دینا پڑے گا””””” کیٹ نے غصے سے کہا….
اچھا تم ناراض نا ہوں میں ابھی کھول دیتا ہوں مائکل نے رسیاں کھولتے ہوئے کہا تو کیٹ کے چہرے پر بھیانک مسکراہٹ تیرنے لگی……
¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤
ادھر نو جوان کو گئے کچھی ہی دیر ہوئ تھی کے جان کو آپنا جسم یکدم توانا محسوس ہونے لگا اسے یوں لگا جیسے بجلیاں دوڑ رہی ہوں جو درد اسے دو سالوں سے محسوس ہوتا رہتا تھا سینے میں وہ غائب ہو چکا تھا….
کہیں یہ اس پانی کا کمال تو نہیں جان نے پانی کی خاکی کین کو دیکھا اور جھٹکے سے اٹھ کھڑا ہوا….
اگر یہ بات ہے تو مجھے اور پانی پینا چاہیے پر وہ نو جوان کہاں گیا….؟ جان نے سوچا اور اس جانب چل پڑا جہاں نواجوان گیا تھا تھوڑی دیر چلنے کے بعد اس کو ایک اسلامک سینٹر نظر آیا…..
“””وہ نوجوان حلیہ سے مسلمان دکھائ دے رہا تھا شاید اس سینٹر میں آتا جاتا ہومجھے ان سے ہوچھنا چاہیے””” جان نے سوچا اور دروازے پر لگی کال بیل بجادی تھوڑی دیر بعد ایک بوڑھا باہر نکلا اسکے سر کے بال اور داڑھی کے بال بلکل سفید تھے…..
“””جی فرمائیے میں آپکی کیا مدد کر سکتا ہوں”””” بوڑھے نے شفقت بھرے لہجے میں کہا…. ‘”””دراصل مجھے ایک خاص پانی کی تلاش ہے ایک نو جوان نے مجھے دیا تھا کیا مجھے ویسا پانی مل سکتا ہے””””” جان ویک نے بوڑھے کو کین دکھاتے ہوئےکہا تو بوڑے کے چہرے پر مسکراہٹ آگئ کین دیکھ کر….
“”””””آؤ بیٹا اندر آجاؤ”””” بوڑھے نے شفقت بھرے لہجے میں کہا تو جان سر جھکا کے اس کے ساتھ اندر داخل ہو گیا….
جاری ہے
——
آپکو یہ ناول کیسا لگا؟
کمنٹس میں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔
“””””شاید میرا آخری وقت آگیا ہے”””””””
جان نے دل ہی دل میں سوچا اور اسکی آنکھوں میں اور ویرانی چھاگئ…..
“””””میرے خیال میں آپکو اسکی ضرورت ہے””””‘” کسی کی آواز اس کے کانو میں پڑی تو اس نے دیکھا اس کے ساتھ بینچ پر سفید لباس میں ملبوس ایک باریش نواجوان بیٹھا تھا…… “”””””ویسے تو میں یہ کسی اور کے لیے لے جارہا تھا مگر اب مجھے محسوس ہورہا کہ اس وقت آپ سے زیادہ ضرورت کسی کو نہیں””””””” نوجوان نے پانی کا چھوٹا کین جان کی جانب بڑھاتے ہوئے کہا تو جان نے اس کین کو پکڑت ہی منہ سے لگا لیا اور پانی کا ایک قطرہ بھی نا چھوڑا……
“”””شکریہ””””” جان پانی پی کر بنچ کی پشت سے ٹیک لگا کے آنکھیں بند کر لیں…..
“”””اگر آپ بُرا نا منائیں تو ایک بات کہوں…؟”””” نوجوان نے پُر اخلاق لہجے میں کہا….
“””بولو”””” جان بدستور آنکھیں بند کر کےکہا…. مجھے لگتا آپ بھی میری طرح بنجارے ہو جو ادھر اُدھر گھومتے رہتے ہیں انسان کےبنجارہ ہونے کی دو وجہ ہوتی ایک یا کسی کی تلاش ہو یا پھر وہ کسی سے بھاگ رہا ہو……
“””اچھا……تو تم کونسی نسل کے ہو””””” جان نے بے دلی سے پوچھا… مجھے کسی کی تلاش ہے نوجوان نے مسکرا کرکہا…..
“””کس کی….”” جان نے لا پرواہی سے پوچھا…. خدا کی … جان اسکی بات سنتے ہی طنزیہ مسکرا دیا….
تو کیا پھر خدا ملا..؟ جان نے طنزیہ انداز میں پوچھا….
“”””””ہاں اس وقت میرے سامنے ہی تو ہے”””””” نو جوان نے مسکرا کر کہا تو جان آنکھیں کھول کر حیرت سے دیکھنے لگا….. جب ہم کسی دُکھی انسان کی مدد کرتے ہیں تو اسکے چہرے پر جو خوشی نظر آتی ہے اس میں خدا دکھائ دیتا ہے…..
“””””””مگر مجھے تو ایسا کبھی نظر نہیں آیا “””””””” جان نے شرمندگی سے کہا…. کیونکہ آپکی نظر کا زاویہ درست نہیں ہے—— اچھا اب میں چلتا ہوں نوجوان اٹھ کر چل دیا اور جان حیرانگی سے اسے جاتے ہوئے دیکھ رہا تھا…..
for more books – urdunovels.info¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤
مائیکل کیٹ کے بیڈ کے ساتھ بے بسی سے کھڑا تھا اس کی آنکھیں سوئ ہوئ کیٹ کو دیکھ کے بھر آئ تھی تمام گھر والے کیٹ سے مایوس ہو چکے تھے اتنی بری طرح سہمے ہوئے تھے کے سب کے سب آپنے کمروں میں بند تھے ملازموں نے تو اب کیٹ کے کمرے کی جانب آنا ہی چھوڑ دیا تھا اس لیے صرف مائکل ہی وہاں موجود تھا….
“”””دیکھو تم کون ہو اور کیا چاہتے ہو میں نہیں جانتا صرف اتنا جانتا ہوں کہ کیٹ بہت معصوم ہے خدا کے لیے اسے چھوڑ دو””””” مائکل نے جزباتی انداز میں کہا تو کیٹ کی آنکھیں ایک جھٹکے سے کھل گئیں اس کی آنکھیں اور چہرے کے تاثرات نارمل تھے مائکل کی آنکھیں بند تھیں اور اس لیے وہ کیٹ کو ہوش میں آتا نا دیکھ سکا….. “””””مائکل”””””” کیٹ نے پکارا تو مائیکل نے جلدی سے آنکھیں کھولی…. “””” مائکل یہ سب کیا ہے اور مجھے اس طرح رسیوں سے کیوں باندھ رکھا ہے کیٹ نے حیرت سے رسیوں کو دیکھتے ہوئے کہا—-اسے نارمل دیکھ کر مائیکل آگے بڑھا…… “”””کیٹ””””‘وہ تم بیمار تھی…….ناں…. مائکل کے منہ سے رک..رک کر نکلا….. “”کیا…. مجھے کیا ہوا تھا جو مجھے اس طرح باندھا گیا….؟ کیٹ نے آپنا ہاتھ رسی سے آزاد کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا مگر ناکام رہی…..
کیٹ کا یوں اچانک ٹھیک ہو جانا کسی معجزے سے کم نہیں تھا….
میں بلکل ٹھیک ہوں مجھے انسے آزاد کرواؤ—- کیٹ نے کہا….
ہاں…….مگر مائکل نےکہنا چاہا….
مگر کیا مجھ پر کوئ دیوانگی کا دورہ پڑھ رہا تھا میں کاٹ کھانے کو دوڑتی تھی جو مجھے اس طرح باندھ رکھا جانوروں کی طرح…کیٹ نے غصے سے کہا….
ہاں کیٹ….. کچھ ایسا ہی تھا… مائکل کو سمجھ نی آرہی تھی وہ کیسے کہے کیٹ سے…….
اچھا جو بھی تھا اب میں بلکل ٹھیک ہوں مجھے کھولو—-کیٹ نے کہا…
کیا تم سچ میں ٹھیک ہو کیٹ…؟ مائکل نے خوش ہوتے ہوئے کہا….
“””””ہاں تو کیا اب مجھے لکھ کر دینا پڑے گا””””” کیٹ نے غصے سے کہا….
اچھا تم ناراض نا ہوں میں ابھی کھول دیتا ہوں مائکل نے رسیاں کھولتے ہوئے کہا تو کیٹ کے چہرے پر بھیانک مسکراہٹ تیرنے لگی……
¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤
ادھر نو جوان کو گئے کچھی ہی دیر ہوئ تھی کے جان کو آپنا جسم یکدم توانا محسوس ہونے لگا اسے یوں لگا جیسے بجلیاں دوڑ رہی ہوں جو درد اسے دو سالوں سے محسوس ہوتا رہتا تھا سینے میں وہ غائب ہو چکا تھا….
کہیں یہ اس پانی کا کمال تو نہیں جان نے پانی کی خاکی کین کو دیکھا اور جھٹکے سے اٹھ کھڑا ہوا….
اگر یہ بات ہے تو مجھے اور پانی پینا چاہیے پر وہ نو جوان کہاں گیا….؟ جان نے سوچا اور اس جانب چل پڑا جہاں نواجوان گیا تھا تھوڑی دیر چلنے کے بعد اس کو ایک اسلامک سینٹر نظر آیا…..
“””وہ نوجوان حلیہ سے مسلمان دکھائ دے رہا تھا شاید اس سینٹر میں آتا جاتا ہومجھے ان سے ہوچھنا چاہیے””” جان نے سوچا اور دروازے پر لگی کال بیل بجادی تھوڑی دیر بعد ایک بوڑھا باہر نکلا اسکے سر کے بال اور داڑھی کے بال بلکل سفید تھے…..
“””جی فرمائیے میں آپکی کیا مدد کر سکتا ہوں”””” بوڑھے نے شفقت بھرے لہجے میں کہا…. ‘”””دراصل مجھے ایک خاص پانی کی تلاش ہے ایک نو جوان نے مجھے دیا تھا کیا مجھے ویسا پانی مل سکتا ہے””””” جان ویک نے بوڑھے کو کین دکھاتے ہوئےکہا تو بوڑے کے چہرے پر مسکراہٹ آگئ کین دیکھ کر….
“”””””آؤ بیٹا اندر آجاؤ”””” بوڑھے نے شفقت بھرے لہجے میں کہا تو جان سر جھکا کے اس کے ساتھ اندر داخل ہو گیا….
جاری ہے
——
آپکو یہ ناول کیسا لگا؟
کمنٹس میں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔